Sunday, November 2, 2014

وطن کی سوندھی مٹی کی خوشبو

وطن کی سوندھی مٹی کی خوشبو
ہواؤں کی مانوس مہک
کھیتوں کھلیانوں کے مناظر
میدان ، پہاڑ ،صحرا، سمندر
دریا ، نہریں ، جنگل جھیلیں
اس کے ہنستے بستے شہر
سب ہی یاد عہد رفتہ اور قصہ ء پارینہ ہو گئے ہیں
عوام کی آنکھ کے آنسو اور دریاؤں کے پانی 
سب سوکھ گئے ہیں
اس کی سبز زرخیز وادیاں 
خونناب ہیں
اس کے جنگل بھی اب ویران ہیں
اس کے ہنستے بستے شہر ماتم کدے بن چکے ہیں
پچھلی چند دہائیوں میں
اس دھرتی کے بیٹوں نے
دھرتی ماں کو کالی ماتا میں بدل دیا ہے
خون آشام دھرتی
کتنی سہاگنوں کے سہاگ
کتنی ماؤں کے لال نگل گئی ہے 
کوئی ہے جو ان کپوتوں کو سپوت بنادے
کوئی ہے جو دھرتی ماں کے چہرے پہ ملی یہ کالک اتاردے
کوئی تو ہو
اے آسمان
کوئی تو ہو
کوئی تو ہو

No comments:

Post a Comment