Friday, November 28, 2014

میرے لیے کون سوچتا ہے

میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں کے پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں
میرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کے دل میں کدورتیں ہیں

No comments:

Post a Comment