پروفیسر :بیٹا! تم ایک مسلمان ہو ، کیا میں نے ٹھیک کہا ؟
طالب علم : جی ، سر ۔
پروفیسر : تو پھر تم خدا پر یقین رکھتے ہو ؟
طالب علم : بالکل جناب
پروفیسر : کیا خدا ایک اچھی ہستی ہے؟
طالب علم : یقیناً
پروفیسر : کیا خدا تمام چیزوں پر قُدرت رکھتا ہے؟
طالب علم :جی
پروفیسر : میرا بھائی کینسر کا ایک مریض تھا ،اور مرنے سے پہلے اس نے خدا کے آگے صحت یاب ہونے کی خاطر بہت دعا کی ، لیکن اس قدر التجا کے باوجود بالآخر وہ مر گیا۔ ہم میں سے اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو لوگوں میں اکثریت اس کی مدد کرنے کی کوشش کرے گی لیکن خدا نے اس کی کوئی مدد نہ کی ۔تو پھر مجھے بتاؤ خدا ایک اچھی ہستی کیسے ہوا ؟
(طالب علم خاموش)
پروفیسر : تمہارے پاس اسکا کوئی جواب نہیں
ہے کوئی؟
چلو میں اپنا سوال پھر سے دہراتا ہوں
کیا خدا ایک اچھی ہستی ہے؟
طالب علم : جی
پروفیسر : کیا شیطان ایک اچھی ہستی ہے؟
طالب علم : نہیں
پروفیسر : شیطان کہاں سے آیا
طالب علم : ۔۔۔۔۔ خُدا۔۔۔۔ سے
پروفیسر : ٹھیک ، تو پھر اب مجھے یہ بتاؤ کہ کیا دنیا میں بُرائی کا کوئی وجود ہے؟
طالب علم : جی سر
پروفیسر : بُرائی ہر جگہ ہے ، ہے نا؟ اور ہر چیز خدا نے بنائی ہے ، ٹھیک؟
طالب علم : جی
پروفیسر : تو پھر بُرائی کو کس نے بنایا؟
(طالب علم نے کوئی جواب نہ دیا)
پروفیسر : دنیا میں بیماریوں ، نفرتوں ، عداوتوں اور ان جیسی اور کئی گھناؤنی اشیاء کا وجود ہے ، ہے نا؟
طالب علم :جی سر ۔
پروفیسر :اور ان سب کو کس نے پیدا کیا؟
(طالب علم خاموش ۔ اس نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا)
پروفیسر : سائنس کہتی ہے کہ انسانی جسم حواس خمسہ پر مشتمل ہے ، جنہیں تم اپنے ارگرد کے ماحول کے مشاہدے اور پہچان کی غرض سے استعمال میں لاتے ہو ۔ تو اب مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم نے خدا کو دیکھا ہے؟
طالب علم : نہیں جناب
پروفیسر :کیا تم نے کبھی اپنے خدا کو بولتے سنا ہے؟
طالب علم : نہیں سر
پروفیسر : کیا تم نے اپنے خدا کو کبھی محسوس کیا ہے ؟ اسکو چکھا ہے؟ سونگھا ہے؟ یا تمہاری کوئی بھی حس ، جس نے خدا کی موجودگی کا کبھی تمہیں احساس دلایا ہو؟
طالب علم : نہیں جناب ، میرا خیال ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔
پروفیسر : اس کے باوجود تم خدا کو مانتے ہو؟
طالب علم : جی
پروفیسر : تجربات اور مشاہدات کی رو سےسائنس کہتی ہے کہ تمہارے خدا کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ تو تم اس بارے کیا کہتے ہو؟
طالب علم :کچھ نہیں ، میں بس اپنے ایمان پر یقین رکھتا ہوں
پروفیسر : ہاں ۔۔ ایمان۔۔سائنس کو یہی ایک مسئلہ تو درپیش ہے
طالب علم : پروفیسر کیا کوئی ایسی چیز ہے ، جس کا نام حرارت ہے؟
پروفیسر : ہاں ہے
طالب علم : اور کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے ٹھنڈ کہتے ہیں؟
پروفیسر : بالکل
طالب علم : نہیں جناب، ٹھنڈ نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ۔
( مناقشے نے یک لخت جواس طرح پلٹا کھایا تو ہال میں مکمل خاموشی چھا گئی )
طالب علم : سر ! آپ مختلف مقداروں میں حرارت حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ زیادہ ، بہت زیادہ ، سُپر ، میگا ، کم ، بہت کم یا پھر بالکل نہیں ، لیکن ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں جسے ٹھنڈ کہتے ہیں ۔ ہم منفی 458 ڈگری تک درجہ حرارت گرا سکتے ہیں جہاں پہچنے کے بعد حرارت کا بالکل کوئی وجود نہیں رہتا ، اس کے بعد ہم اس سےاور آگے نہیں جا سکتے ۔ ٹھنڈ نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ، بلکہ "ٹھنڈ" کا لفظ ہم صرف حرارت کی غیر موجودگی کے اظہار کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ ٹھنڈ کی پیمائش کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ۔ اور حرارت کیا ہے؟۔۔۔ ایک توانائی۔۔۔ اور ٹھنڈ حرارت کا عکس نہیں ۔۔۔بلکہ یہ صرف ایک علامت ہے ۔۔۔حرارت کی غیر موجودگی کی
(ہال میں ایسی خاموشی کہ جیسے سامعین کو سانپ سونگھ گیا ہو )
طالب علم : اندھیرے کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ، پروفیسر ؟ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو اندھیرا کہلاتی ہے؟
پروفیسر : ہاں ہے، اگر نہيں تو پھر یہ رات کیسے ڈھلتی ہے ؟
طالب علم : آپ پھر غلطی پر ہیں سر ۔ اندھیرا اصل میں کسی چیز کی غیر موجودگی کی دلیل ہے – آپ روشنی کم ، معتدل ، زیادہ یا پھر اتنی مقدار میں حاصل کر سکتے ہیں جو آنکھوں کو جھپکا دے ۔ لیکن اگر روشنی مستقل طور پر غائب ہو جائے تو پھر آپ کے پاس اس کا کوئی وجود نہیں ہو گا اور ایسی کیفیت کو ہم اندھیرا کہیں گے ۔ کیا میں نے ٹھیک کہا ؟ حقیقت میں اندھیرے کا اپنا کوئی وجود نہیں ۔ اگر اس کا اپنا کوئی وجود ہوتا تو آپ اس میں بھی کم زیادہ کی تمیز کر سکتے ۔ جیسے کم اندھیرا ، گہرا اندھیرا یا گھپ اندھیرا وغیرہ وغیرہ جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے ۔ درست ؟
پروفیسر : تو پھر تم اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو ؟
طالب علم : سر !میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے فلسفے کی اساس ہی خامیوں پر مبنی ہے
آپ ہر چیز کے دوہری حیثیت پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ کے مطابق اگر ایک چیز زندگی ہے تو وہیں دوسری موت ۔ ایک اچھا خدا اور ایک بُرا ۔ خدا کی ذات پر آپ کا نظریہ ایسے ہے جیسے یہ کوئی ایسی چیز ہو جس کی کوئی حد ہو یا جس کی پیمائش کی جا سکتی ہو ۔ سر ! سائنس کسی انساں کی ذہنی سوچ کے بارے کوئی واضح توجیح پیش نہیں کر سکتی ۔ سائنس میں بجلی اور مقناطیسیت کا استعمال عام ہے ، پر کیا کبھی کسی نے انہیں دیکھا ہے؟ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں اب تک کلّی یا مکمل جانکاری حاصل کی جا سکی ہو ۔ موت کو زندگی کا الٹ قرار دینا دراصل اس حقیقت سے رو گردانی ہے جیسا کے موت کے وجود سے انکار
موت زندگی کا الٹ نہیں ، بلکہ یہ علامت ہے زندگی کی غیر موجودگی کی ۔ پروفیسر ! آپ مجھے یہ بتائیے کہ کیا آپ اپنے طالب علموں کو یہ پڑھاتے ہیں کہ انسان کی نمو بندر سے ہوئی ہے؟
پروفیسر : اگر تمہارا اشارہ انسانی نمو کے تطویری عمل کی طرف ہے ، تو بالکل میں یہ درس دیتا ہوں
طالب علم : سر !کیا آپ نے اس تطویری عمل کو ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے
(اس چیز کا ادراک کرتے ہوئے کہ یہ بحث کیا رخ اختیار کر رہی ہے پروفیسرایک مسکراہٹ کےساتھ انکار میں اپنا سر ہلانے لگے)
طالب علم : اوراگر جب کسی نے انسانی افزائش میں تغیرات کےعمل کو رو پذیر ہوتے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس جاری عمل کا اختتام کیا ہو گا، تو سر کیا آپ ایک ایسا فلسفہ نہیں پڑھا رہے جو کہ آپ کی اپنی ایک ذاتی راۓ ہے اور پھر کیا آپ ایک سائنسدان کی بجائے ایک مبلغ نہیں ہیں جو اپنے ذاتی عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں ؟
(کلاس میں ہر کوئی اپنے تمام تر حواس مرکوز کئیے ہوئے ، ہمہ تن گوش )
طالب علم : کیا حاضریں میں سے کسی نےکبھی پروفیسر کا دماغ دیکھا ہے؟
(تمام حاضرین کی ہنسی ہال میں گونج گئی)
طالب علم : کیا حاضرین میں کوئی ایسا ہے جس نے پروفیسر کے دماغ کو بولتے سنا ہے، اسے محسوس کیا ہے ، چھووا یا سونگھا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کوئی ایک شخص بھی ہو گا، لہذا کیا پھر سائنس کےتجربات اور مشاہدات کے اصولوں کی روشنی میں سائنس یہ کہے گی کہ آپ میں دماغ ہی نہیں ہے ۔ سر تمام تر احترام کے ساتھ میرا یہ سوال ہے کہ پھر ہم آپ کے لیکچرز پر کیونکر بھروسہ کریں؟
پروفیسر : میرا خیال ہے کہ تمہارے پاس میرے لیکچرز پر یقین کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں
طالب علم : بالکل۔۔۔اسی طرح سر۔۔۔ہمیں خدا اوراس پر ایمان کے درمیان جو ایک ربط ہے اس پر یقین کرنا پڑے گا۔۔۔اور یہی ایک ایسی چیز ہے جس نے کائنات کے تمام تر نظام کو زندہ بھی رکھا ہوا ہے اور اسے چلا بھی رہی ہے ۔
No comments:
Post a Comment