Saturday, November 15, 2014

سہارے چھوٹ جاتے ہیں

بہت معصوم تھے بم بھی
همیں اب یاد پڑتا ہے
کہ بم ایک اجنبی کو عمر کی تاریک راہوں پے
سہارا مان بیٹھے تھے
کہ اس کے چاند چہرے کو 
ہم اپنے بخت کا روش ستارا مان بیٹھے تھے
ہمیں معلوم ہی کب تھا کہ دشت-زندگی میں
سہارے چھوٹ جاتے ہیں
کبھی ایسا بھی بهی ہوتا ہے
نظر جن پر ٹھہرتی ہے
وہ ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
خود اپنے روٹهه جاتے ہیں
بہت معصوم تھے ہم بھی
ہمیں معلوم ہی کب تھا

No comments:

Post a Comment