یہ اکیلے پن کی اداسیاں، یہ فراق لمحے عذاب سے
کبھی دشتِ دل پہ آ رکیں تیری چاہتوں کے سحاب سے
میں ہوں تجھ کو جاں سے عزیز تر، میں یہ کیسے مان لوں اجنبی
تیری بات لگتی ہے وہم سی، تیرے لفظ لگتے ہیں خواب سے
یہ جو میرا رنگ و روپ ہے یونہی بے سبب نہیں دوستو!
میرے خوشبوؤں سے ہیں سلسلے میری نسبتیں ہیں گلاب سے
اسے جیتنا ہے تو ہمنشیں! یونہی گفتگو سے نہ کام لے
کوئی چاند لا کے جبیں پہ رکھ، لا کوئی گہر تہہِ آب سے
وہی معتبر ہے میرے لیے، وہ جو حاصلِ دل و جان ہے
وہ جو باب تم نے چرا لیا میری زندگی کی کتاب سے.
No comments:
Post a Comment