فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں
کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے
کار ہائے دنیا سے جو ملے ہم کو
وہ چاک تمھاری رفاقتوں سے نہ سلے ہوتے
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
تو آج اس حسیں موڑ پر اجنبی جیسے
مل بیٹھتے اور اک نیا آغاز کرتے
تم اپنی مسکراہٹ سے چھیڑتی راگنی
ہم دل کو مدعا، دھڑکنوں کو آواز کرتے
فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
تم اپنی دنیا میں گم سم
الگ سے خواب بنا کرتی
ہم اپنے خیالوں میں گنگناتے
کوئی دور ہمیں سنا کرتی
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں
کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے
تو اب جو ملال گزرے دنوں کا ہے
وہ کسی اور شخص سے منسوب ہوتا
ہم تم اجنبی ہی رہتے جو عمر بھر
تو سوچو کتنا خوب ہوتا
نہ چاہتیں ہوتیں، نہ رنجشیں بنتیں
آرزوئیں جو دل میں دبی رہتیں
ایسے نہ آنکھوں کی بارشیں بنتیں
نہ تمھیں کچھ ہماری خبرہوتی
نہ ہمیں کوئی تمھاری فکر ہوتی
نہ جھگڑے وفا جفا کے ہوتے
نہ ہی کوئی ہجر و وصال کے سلسلے ہوتے
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
Friday, November 28, 2014
فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment