تم ابرِ گریزاں ہو
میں صحرا کے جیسا ہوں
دو بوند جو برسوگے
بیکار میں برسوگے
ہے خشک بہت مٹی
ہر سمت بگولے ہیں
صحرا کے بگولے سے
اٹھتے ہی تو شعلے ہیں
تم کھل کے اگر برسو
صحرا میں گلستان ہو
پر تم سے کہیں کیسے
تم ابرِ گریزاں ہو
جل تھل جو اگر کردو
تن من میں نمی بھردو
ہے خشک بہت مٹی
پوری جو کمی کردو
پھر تم کو بتائیں گے
تم روح میں پنہا ہو
پر تم سے کہیں کیسے
تم ابرِگریزاں ہو
No comments:
Post a Comment