سنو،اک بات کہنی ہے
ابھی تک آرزو کے سب سنہری پھول کھلتے ہیں
ابھی کلیاں چٹکتی ہیں ابھی تارے چمکتے ہیں
ہوائے شام میں اب بھی مہک محسوس ہوتی ہے
ابھی ساحل کی گیلی ریت پر ٹوٹے گھروندوں کا ذرا سا نقش باقی ہے
ابھی تک آنکھ میں بیتے ہوئے لمحوں کا زندہ عکس باقی ہے
لبوں پر کرب بکھرا ہے، لہو میں رقص باقی ہے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو
تمناؤں کے آنگن میں ابھی برسات باقی ہے
ابھی ہے دھند آنکھوں میں
دریچوں میں کہیں دم سادھ کے بیٹھی غلط فہمی کی قاتل گھات باقی ہے
منڈیروں پر ابھی دیپک بھڑکتے ھیں
ابھی لمحوں کے دامن ميں لہو کو سرد کرتی وحشتوں کی رات باقی ہے
ابھی دیدہء حیراں میں عجب اک بے یقینی ہے شکست فاش ہونی ہے،
ابھی اک آخری شہ مات باقی ہے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو
ابھی قصہ ادھورا ہے ابھی الجھی کہانی ہے
ابھی الزام سہنے ہیں ابھی تہمت اٹھانی ہے
ابھی رستے بدلنے ہیں ابھی ایقاں بکھرنا ہے
ابھی تو دھول اڑنی ہے ابھی خوابوں کو مرنا ہے ابھی ہے آگ سانسوں میں،
ابھی آنکھوں میں پانی ہے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو
چلو کچھ دیر دونوں ساتھ چلتے ہیں
شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
ReplyDeleteجانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے
گلزار