ماں! تمہاری مامتا کی قسم
ڈاکٹر سعادت سعید
ماں!تمہاری مامتا کی قسم
ہم بے گناہی کے جرم میں ہلاک ہوئے ہیں
نیکی، روشنی، زندگی کی قدریں
ہمارے خمیر میں تھیں!
تمہارے بیٹے، تمہاری بیٹیاں
اجنبی زلزلوں کے
ایک ہی جھٹکے سے
برباد ہوگئے ہیں
بے آباد ہو گئے ہیں
جو فصلیں ہم نے بنجر، بے آباد زمینوں میں
اپنے جسموں کی کھاد
اور لہو کی تخم پاشی سے تیار کی تھیں
اجنبی گورکنوں کے حواریوں نے
انہیں بے دردی سے کاٹا ہے
ہمیں اورہمارے اعصابوں کو
تہِ تیغ کیا ہے
صرف ایک پل
بے شعوری کے ایک پل میں
تمہارے جگر گوشے
ہماری فصلیں
ہماری بہنیں موت کے گھاٹ اترے ہیں
ہماری کم نگہی
کم ہمتی کے
ایک پل میں
ہمارا قتل عام
کروڑوں انسانوں کا
قتل عام ہوا ہے!
ہمارے قصبوں میں چراغ نہیں جلتے
کھیتوں میں بنسریوں کی
سریلی تانیں سنائی نہیں دیتیں
کچے گھروندوں سے ڈھولک کی آواز نہیں آتی
ناچتے یار مناتے پاؤں
پگڈنڈیوں پہ
چھپکلیوں کی کٹی دموں کی مانند
تڑپ رہے ہیں
ReplyDeleteیہ شعر کونسی کتاب سے ماخوذ ہے