بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے
جاتے ہوئے لمحوں کو صدائیں نہیں دیتےمانا یہی فطرت ہے مگر اس کو بدل دو
بدلے میں وفاؤں کے جفائیں نہیں دیتےگر پھول نہیں دیتے تو کاٹتے بھی تو مت دو
مُسکان نہ دینی ہو تو آہیں نہیں دیتےتم نے جو کیا، اچھا کیا، ہاں یہ گلا ہے
منزل نہ ہو جس کی تو وہ راہیں نہیں دیتےیہ بار کہیں خود ہی اُٹھانا نہ پڑے کل
اوروں کو بچھڑنے کی دعائیں نہیں دیتے
Friday, October 31, 2014
بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے
جو تم مایوس ہو جاؤ تو رب سے گفتگو کرنا
جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا
وفا کی آرزو کرنا
سفر کی جستجو کرنا
جو تم مایوس ہو جاو
تو رب سے گفتگو کرنا
یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے
کہ کوئی کھو بھی جاتا ہے
مقدر کو برا بهلا جانو گے
تو یہ سو بھی جاتا ہے
اگر تم حوصلہ رکهو
وفا کا سلسہ رکهو
جسے تم خالق کہتے ہو
تو اس سے رابطہ رکهو
میں یہ دعوے سے کہتا ہوں
کبھی ناکام نہ ہو گے
Monday, October 27, 2014
بچھڑنے والے! چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ!
بچھڑنے والے!
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ!
کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں؟
کہ کنتی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں؟
کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے؟
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے؟
کہ کتنے لمحے شمار کرنے ہیں ہجرتوں کے؟
کہ کتنے موسم اک اک کر کے جدائیوں میں گزارنے ہیں؟
بتا کے جاؤ!
کہ پنچھیوں نے اکیلے پن کا سبب جو پوچھا
تو کیا کہوں گا؟
بتا کے جاؤ!
کہ میں کس سے تیرا گلہ کروں گا؟
بچھڑ کے تجھ سے حبیب میرے
میں کس سے ملا کروں گا؟
بتا کے جاؤ!
کہ اب رویوں کی چال کیا ہو؟
جواب کیا ہو؟
سوال کیا ہو؟
عروج کیا ہو؟
زوال کیا ہو؟
نگاہ،،رخسار ،،زلف،،چہرہ
نڈھال کیا ہو؟
بتا کے جاؤ!
کہ میری حالت پہ چاندنی کھلکھلا پڑی تو
کیا کروں گا؟
بتا کے جاؤ!
کہ میری صورت پہ تیرگی مسکرا پڑی تو
کیا کروں گا؟
بتا کے جاؤ!
تم کو کتنا پکارنا ہے؟
بچھڑ کے تجھ سے یہ وقت کیسے گزارنا ہے؟
اجاڑنا ہے؟
یا
نکھارنا ہے؟
بدن کو کتنا سنوارنا ہے؟
بچھڑنے والے!
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ!
کہ لوٹنا بھی ہے یا نہیں ؟
آنکھ لگتے ھی صدا دے کے جگاتا کیوں ھے
آنکھ لگتے ھی صدا دے کے جگاتا کیوں ھے
وہ مرے خواب کی زنجیر ھلاتا کیوں ھے
جس کا رشتہ ھے کوئی اب نہ تعلق مجھ سے
وہ غزل بن کے مری سوچ میں آتا کیوں ھے
اب بھی تنہائی میں اک یاد کی صورت مجھ کو
میرے ھونے کا وہ احساس دلاتا کیوں ھے
اپنی پلکوں پر سجا کر وہ مرے ھجر کی لَو
مجھ سے بیگانہ مری یاد مناتا کیوں ھے
وہ ھے پتھر تو مرے سر کی حفاظت کیسی
آئینہ ھے تو مرے زخم چھپاتا کیوں ھے
جس نے دیکھی نہ کوئی گردِ سفر بھی اب تک
داستاں اس کو مسافت کی سناتا کیوں ھے
راہ سورج کی بڑی دیر سے تکنے والے
آنکھ اب دھوپ کی شدت سے چراتا کیوں ھے
ھے کوئی بات پسِ ربط و تعلق ورنہ
شیشہ پتھر سے رہ و رسم بڑھاتا کیوں ھے
درد فہمی تجھے معلوم ھے جس کی رزمؔی
نِت اسے تازہ غزل اپنی سناتا کیوں ھے
آج رویا بہت حسرتوں کو شمار کر کے
آج رویا بہت حسرتوں کو شمار کر کے
چین آیا ہے اب خواہشوں کو مسمار کرکے
اے مالک تیرے سب کھیل نرالے
دیکھ لیا بہت انتظار کر کے
کسی کو دی دنیا جہاں کی دولت
کسی کی زندگی گزر گئی فکر روزگار کر کے
کسی کو بن مانگے مل گئی فقیری
کسی کو کچھ نہ ملا سجدے ھزار کر کے
کہیں محبتوں کے روز پھول کھلتے ہیں
کسی کو محبوب چھوڑ گیا محبت کا کاروبار کر کے
تنھا تم تو گئے تھے خوشیوں کی تلاش میں
لیکن لوٹ آئے ہو دل کو بے قرار کر کے
یہ سب بنا ان کے ادھورا ہوں اور ان کے سنگ پورا ہوں...!!!
میری شاعری کو پڑھ کے
میرےدوست پوچھتے ہیں
سنوـــــــــ
کہیں تمھارے لفظوں میں خوشی کے رنگ ملتے ہیں.....
کہیں تمھارے جذبوں میں غموں کے تاثر دکھتے ہیں.....
کہیں تم روتے ہو شدتِ غم کے حوالوں سے.....
کہیں چپ سی نظر آتے ہو گہرے خیالوں میں.....
مگر جب تم ہمارے ساتھ ہوتے ہو تو.....
تمھاری آنکھوں میں دُکھ کا کوئی سایہ نہیں دِکھتا.....
تمھاری مسکراہٹ زندگی سے بھرپور ہوتی ہے.....
ہمیں اک بات بتلاؤ
تمھارا کونسا ہے روپ ؟ جسے اصلی سمجھ لیں ہم ؟
تو دھیرے سے میں کہتا ہوں.....
بہت سادہ سے لفظوں میں مجھے یہ بات کہنی ہے.....
کہ میرے لفظ میری شاعری ہے ترجمہ میرا.....
کہ میں خود ہی نہیں ہوں جانتا اپنا کوئی پتا.....
ہاں پر اتنی حقیقت ہے ـــــــــــــــــــ
کسی اپنے کے ہجر نے بہت ہی توڑ ڈالا ہے.....
وجہ بس اتنی سی ہے.....
کہ میرے لفظوں کی سب راہیں.....
اسی منزل کو جاتی ہیں.....
تو سب محسوس کرتے ہیں.....
طوفانِ غم کی شدت کو.....
میرے سب لفظ سبھی کو.....
ٹوٹے پھوٹے بکھرے سے لگتے ہیں.....
میرے جذبے سبھی کو.....
روکھے سوکھے گہرے لگتے ہیں.....
مگر خود کو چھپا کر مسکراہٹ کے پردے تلے.....
میں مسکراتا، کھکھلاتا ، چہچہاتا ہوں.....
کہ میں یہ جانتا ہوں.....
زندگی کی قوس قزح کے رنگ ہیں.....
یہ سب بنا ان کے ادھورا ہوں اور ان کے سنگ پورا ہوں...!!!
مجھے تم کیا بتاؤ گی ؟
مجھے تم کیا بتاؤ گی ؟
کہ جب سے مجھ سے بچھڑی ہو
بہت بےچین رہتی ہو
مری باتیں ستاتی ہیں
مرے لفظوں کے جگنو!
ایک پل اوجھل نہیں ہوتے
مری نظمیں رُلاتی ہیں
مری آنکھیں جگاتی ہیں
مجھے تم کیا بتاؤ گی ۔۔
کہ تم نے بارہا اُن اجنبی چہروں کے جنگل میں
مرے چہرے کو ڈھونڈا ہے
کسی مانوس لہجے پر
کسی مانوس آہٹ پر
پلٹ کر ایسے دیکھا ہے
کہ جیسے تم میری موجودگی محسوس کرتی ہو!
مجھے تم کیا بتاؤ گی!
کہ کتنی شبنمی شامیں
ٹہلتے، سوچتے گزریں
کہ کتنی چاندنی راتیں
دُعائیں مانگتے گزریں
کہ کتنے اشک ایسے تھے
جو گِرتے ہی رہے دل میں
مجھے تم کیا بتاؤ گی ۔۔
مری جاں! میں سمجھتا ہوں
تمھاری اَن کہی باتیں
کہ میں ان موسموں کے ایک اک رستے سے گزرا ہوں
میں اب بھی لفظ چُنتا ہوں
میں اب بھی اشک بُنتا ہوں
کہ جب سے تم سے بچھڑا ہوں
تمھاری ذات پر گزرے
میں ہر موسم میں رہتا ہوں
تو پھر تم کیا سناؤ گی
مجھے تم کیا بتاؤ گی
ﺳﻨﻮ! ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﺳﻨﻮ!
ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﮐﮩﻮﮞ ﺗﻮ
ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﺸﮑﯿﮏ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺌﯽ ﻏﺰ ﻟﯿﮟ ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﮨﯿﮟ
ﻣﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺷﮑﻮﮦ
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﻧﺎ!
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺻﻢ
ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮﻭﮞ ﺑﮯﻋﻤﻞ ﺭﮦ ﮐﺮ
ﮐﺌﯽ ﺳﭙﻨﮯ ﺳﺠﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﺩﺑﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺳﻨﻮ! ﺟﻮ ﻓﺮﺽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ
ﺗﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﺒﮭﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ؟
ﺭﮨﯽ ﯾﮧ ﺳﺮﺩﻣﮩﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ
ﺭﯾﻨﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺗﺎ
ﮔِﻠﮯ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺑﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ
ﻓﻘﻂ ﺍِﺱ ﭘﮧ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺑﺲ ﺍﺏ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ
ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮔﺮ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ
ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻦ ﺳﻮﭼﮯ
ﻧﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﻮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮﮞ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻞ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﭼﻠﮯ ﺁﻧﺎ
ﻣﺮﺍ ﯾﮧ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ ﺭﮨﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯽ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮐﺮ ﺟﺎﺅ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮐﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮕﮭﻞ ﮔﯿﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮕﮭﻞ ﮔﯿﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﺗﮯ ﮔﺮﺗﮯ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮔﯿﺎ
ﻭﮦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻟﻤﺤﮧ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ
ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﺠﯿﺐ ﺗﮭﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮍﭖ ﺍﭨﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﮦ ﺳﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺷﮏ ﺳﮯ ﻧﮧ ﭘﮕﮭﻞ ﺳﮑﺎ ﺳﺮ ﺭﺍﮦ ﻣﻼ ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ
ﺗﻮ ﻧﻈﺮ ﭼﺮﺍ ﮐﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﺗﺮ ﮔﯿﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﺗﺮ ﺳﮑﺎ ﻭﮦ ﭼﻼﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ
ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﭘﻠﭧ ﻧﮧ ﺳﮑﺎ ﻭﮦ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﺗﮏ
ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺳﻤﭧ ﺳﮑﺎ
اے مرے کبریا!!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے
میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر
تیری پہچان کا اولیں مرحلہ!
میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا!
تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر!!
میری منزل؟
تیری رہگزر کی خبر!
میرا حاصل؟
تری آگہی کی عطا!!
میرے لفظوں کی سانسیں
ترا معجزہ!
میرے حرفوں کی نبضیں
ترے لطف کا بے کراں سلسلہ!
میرے اشکوں کی چاندی
ترا آئینہ!
میری سوچوں کی سطریں
تری جستجو کی مسافت میں گم راستوں کا پتہ!
میں مسافر ترا ۔۔۔۔ (خود سے نا آشنا)
ظلمتِ ذات کے جنگلوں میں گھرا
خود پہ اوڑھے ہوئے کربِ وہم و گماں کی سُلگتی رِدا
ناشناسائیوں کے پرانے مرض
گُمرہی کے طلسمات میں مبتلا
سورجوں سے بھری کہکشاں کے تلے
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ترا نقش پا ۔ ۔ ۔ !!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
کب تلک گُمرہی کے طلسمات میں؟
ظلمتِ ذات میں
ناشناسائیوں سے اَٹی رات میں
دل بھٹکتا رہے
بھر کے دامانِ صد چاک میں
بے اماں حسرتوں کا لہو
بے ثمر خواہشیں
رائیگاں جستجو!!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
کوئی رستہ دکھا
خود پہ کُھل جاؤں میں
مجھ پہ افشا ہو تُو’
اے مرے کبریا!!
کبریا اب مج ہے
لوحِ ارض و سما کے
سبھی نا تراشیدہ پوشیدہ
حرفوں میں لپٹے ہوئے
اسم پڑھنا سکھا
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!
میں مسافر ترا
ﻋﺰﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽھ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻋﺰﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺗﻮ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽھ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﻭﺭﯼ ﺑﮭﯽ
ﺗﻮﮌﻧﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﮭﯽ
ﻣﻮﮌﻧﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮭﻮﻟﻨﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ
ﻧﻘﺶ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﺭﯾﮟ
ﮐﭽﮫ ﺣﺴﯿﻦ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ
ﮐﭽﮫ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ
ﭘﺎﺅﮞ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﮮ ﮨﻮﮞ
ﮐﮭﻮﻟﻨﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﻮ
ﻧﻮﭼﻨﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﺮ ﺭﺷﺘﮧ
ﺗﻮﮌﻧﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻋﺰﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺗﻮ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽھ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
مرے اندر بہت دن سے کہ جیسے جنگ جاری ہے
مرے اندر بہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
میں نہ چاہوں مگر پھر بھی تمہاری سوچ رہتی ہے
ہر اک موسم کی دستک سے تمہارا عکس بنتا ہے
کبھی بارش تمہارے شبنمی لہجے میں ڈھلتی ہے
کبھی سرما کی یہ راتیں
تمہارے سرد ہاتھوں کا دہکتا لمس لگتی ہیں
کبھی پت جھڑ
تمہارے پاؤں سے روندے ہوئے پتوں کی آوازیں سناتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی موسم گلابوں کا
تمہاری مسکراہٹ کے سبھی منظر جگاتا ہے
مجھے بے حد ستاتا ہے
کبھی پلکیں تمہاری، دھوپ اوڑھے جسم و جاں پر شام کرتی ہیں
کبھی آنکھیں، مرے لکھے ہوئے مصرعوں کو اپنے نام کرتی ہیں
میں خوش ہوں یا اُداسی کے کسی موسم سے لپٹا ہوں
کوئی محفل ہو تنہائی میں یا محفل میں تنہا ہوں
یا پھر اپنی لگائی آگ میں بجھ بجھ کے جلتا ہوں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مرے اندر بہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بے اختیاری ہے
اور اِس بے اختیاری میں
مرے جذبے، مرے الفاظ مجھ سے روٹھ جاتے ہیں
میں کچھ بھی کہہ نہیں سکتا، میں کچھ بھی لکھ نہیں سکتا
اُداسی اوڑھ لیتا ہوں
اوران لمحوں کی مٹھی میں
تمہاری یاد کے جگنو کہیں جب جگمگاتے ہیں
یا بیتے وقت کے سائے
مری بے خواب آنکھوں میں کئی دیپک جلاتے ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مجھے تم کو بتانا ہے
کہ رُت بدلے تو پنچھی بھی گھروں کو لوٹ آتے ہیں
سنو جاناں! چلے آؤ
تمہیں موسم بلاتے ہیں
میری آنکهیں'یه لب'یه انگلیاں
میری آنکهیں'یه لب'یه انگلیاں
مجھ سے یه کهتے ھیں
کے اب جذبات کو اظهار کا رسته نهیں دیتا
کے یه منه زور هوتے ھیں
فقط رستے کے ملنے سے..!
انهیں منزل تلک جانے کی حاجت ھی نهیں رهتی
نئی راھیں بناتے ھیں
نئے راستوں په جاتے ھیں
مگر پهر واپسی کے سب نشاں یه بهول جاتے هیں انهیں رسته نهیں دینا
انهیں تم دل میں رھنے دو
انهیں رسته نهیں دینا
وگرنه خوں رلآئیں گے
مجهے لکهنے کی خواهش ھے
مگر لکها نهیں جاتا
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺩﮦ ﻭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﮯ ﻭﮦ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺩﮦ ﻭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﮯ
ﻭﮦ
ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺷﻨﺎﺳﺎﺋﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ
ﮐﺮﻭﮞ
ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺳﯿﺮِ ﻏﻢِ ﺍﻟﻔﺖ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﺳﻮﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ ، ﻭﻗﻒِ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻧﮧ
ﮐﺮﻭﮞ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﻧﺞ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﮯ ﻭﮦ
ﻭﺍﻗﻒِ ﺩﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺧﻮﮔﺮِ ﺁﻻﻡ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﺤﺮِ ﻋﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺛﺮِ ﺷﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺯﮨﺮ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ!
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﯽ
ﺧﺰﺍﮞ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ
ﺳﻮﺍ
ﻧﮑﮩﺖ ﻭ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻧﻈﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
ﺳﺒﺰﮦ ﺯﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ
ﺳﻮﺍ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻏﻢِ ﺩﻝ ﻧﮧ ﺳﻨﺎﺅﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺍﺯ ﮐﻮ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﻧﮧ
ﮐﺮﻭﮞ
ﺧﻠﺶ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﺳﺖ ﻭ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﻧﮧ
ﮐﺮﻭﮞ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﻠﮧ ﺑﺪﺍﻣﺎﮞ ﻧﮧ
ﮐﺮﻭﮞ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﮧ ﺟﻼ ﺩﮮ ﮔﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﺍﺱ ﮐﻮ
ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺑﮭﻼ ﺗﺎﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﻻﺋﮯ ﮔﯽ
ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺁﺗﺶِ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﮔﯽ
ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﮧ ﺗﮍﭘﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺩﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﮯ ﻭﮦ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒِ ﺍﻟﻔﺖ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻭﺍﺩﯼ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﮔﺰﺭﺗﮯ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺩﮪ ﮐﮭﻠﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﮑﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮔﻨﮕﻨﺎﮨﭧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﺍﮐﺴﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﯽ ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﺍُﻥ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﮨﮯ
ﺍُﻥ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩِﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺷﺌﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﮨﮯ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﮯ ‘ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﺍ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎ
ﺩﻭﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺑﻮ !
ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ !
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﺍِﺱ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﺍِﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ
ﮐﺒﮭﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻧﻮﭺ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮨﻮ ﺳﺎﻝ
ﯾﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﮐﺴﯽ ﺳﺮﻃﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ
ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺑﭽﮭﮍ ﮐﺮ ﺷﺎﺥ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﻮ
ﺛﻤﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﺭﻭﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ
ﺗﻤﮩﺎری یاد کا موسم
ﮐﺒﮭﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
چهپانا راز اس دل کے
چهپانا راز اس دل کے
اگر تم چهوڑ دو جاناں
تمهیں مجھ سے محبت ھے
اگر تم بول دو جاناں
تو جیون کے سفر میں
راستے آسان ھوجائیں
میرے بهی پاس جینے کا کوئی سامان ھوجائے
وگرنه میں،
تمهارے دل کے دروازے کے باھر
آس میں بیٹها رھوں گا
تم کبهی تو بند دروازے کو کهولو گی
میرے شانے په سر رکھ کر
کبهی دهیرے سے بولو گی
مجهے تم سے محبت ھے
کہانی ہے، مری جاں سب کہانی ہے
کہانی ہے، مری جاں سب کہانی ہے
سمندر کی کھلی آغوش میں سویا ہوا دریا
یہ سورج کا نکلنا ڈوبنا اور پھر نکل آنا
یہ ہر اک شام فطرت کا سنہری جام بھر دینا
کہانی ہے مری جاں سب کہانی ہے
یہ بادل کا برسنا اور سوکھی شاخ پر آ کر ٹھہرنا بھی کہانی ہے
یوں پانی پر کسی سوکھے ہوئے اک برگ کا گرنا
یہ شبنم کا چمکنا ، سانس لینا اور مر جانا
پرندوں کا درختوں پر چہکنا بھی کہانی ہے
جو ٹھہری جھیل کے دل میں مناظر کی روانی ہے
مری جاں سب کہانی ہے
یہ پھولوں کا نئے انداز میں کھل کر
خود اپنی باس میں جل کر، بکھر جانا کہانی ہے
ستاروں کا فلک پر نیند سے بے دار ہونا بھی
تمہارا مسکرانا، روٹھ جانا، بات کرنا سب کہانی ہے
مرا ہنسنا، مرا رونا، یہ میرا بولنا لکھنا
ذرا سی آہ بھر لینا کہانی ہے
بچھڑتے وقت یہ میری آنکھ میں آیا ہوا آنسو
حقیقت ہی سہی لیکن
مگر اے دلربا میری
حقیقت خود کہانی ہے
کہانی کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی
حقیقت کچھ نہیں ہوتی
رستے کو سجائے بیٹھے ہو
رستے کو سجائے بیٹھے ہو
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہو
یہ کون ہے جسکی آمد میں
یوں جشن منائے بیٹھے ہو
اب کون ہے تیری نظروں میں
میدان سجائے بیٹھے ہو
اجداد کی مانند اب تم بھی
کیا خواب جگائے بیٹھے ہو؟
اب راکھ سنبھالو تو بھی کیا
جب گھر کو جلائے بیٹھ ہو
دل ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا
کیوں سر کو جھکائے بیٹھے ہو
اب زخموں کو آرام کہاں
غیروں کو دکھائے بیٹھے ہو
کچھ خوشیوں کا سامان کرو
کیا شکل بنائے بیٹھے ہو
وہ درد کہانی بولے گی
جو دل میں چھپائے بیٹھے ہو
کیا بات ہے جو ان پلکوں کو
آپس میں ملائے بیٹھے ہو
اب تجھ سے جدائی نا ممکن
رگ رگ میں سمائے بیٹھےہو
ہم سے ہے کہاں پہ بھول ہوئی
جو بن کے پرائے بیٹھے ہو
وہ نام جو تجھ کو پیارا تھا
وہ نام بھلائے بیٹھے ہو
کچھ روگ پرانا ہے تجھ کو
جو دل میں بسائے بیٹھے ہو
احسان کہاں ویرانے میں
یہ دیپ جلائے بیٹھ ہو
ﺍِﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ، ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ، ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻭﺍﺩﯼ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺗﮯ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺩﮪ ﮐﮭﻠﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﮑﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮔﻨﮕﻨﺎﮨﭧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﺍﮐﺴﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﯽ ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﺍُﻥ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﺍُﻥ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩِﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺷﺌﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﮯ، ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﺍ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎ ﺩﻭﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺑﻮ
ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﺍِﺱ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﺍِﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ؟
ﮐﮧ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ
ﻣﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﯽ
ﮨﯿﮟ ،
ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﭘﯿﺎﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﭘﺮ ﺟﮭﻠﺴﺘﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ
ﭘﺮﯾﺎﮞ
ﭼﮭﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ !
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻋﺰﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﯽ
ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻏﯿﺮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ
ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮ
ﮔﻠﮯ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﯾﮧ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﺳﯽ ﻧﺎﺯﮎ ﺟﺎﻧﯿﮟ ،
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻣﺎﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ !
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺎﮨﮯ ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ،
ﺍﭨﮫ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺟﻮ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ۔
ﯾﮧ ﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ !
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺩﺭﺩ ،
ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ،
ﺟﻮ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ!
ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﺟﻮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻭﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ !
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ؟
ﯾﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ؟
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﯾﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔
ﯾﮧ ﻣﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
اکتوبر پھر اداس ہے
اجنبی سی راہوں میں
دور تک نگاہوں میں
بے رخی کا موسم ہے
آج پھر نگاہوں کو
بیتے پل کی پیاس ہے
پھر رہا ہوں در بدر
کسی معجزے کی آس ہے
ایسا لگتا ہے جیسے
اکتوبر پھر اداس ہے
بات تو کرے کوئی
ساتھہ تو چلے کوئی
خاموشی کا پہرا ہے
زخم دل کا گہرا ہے
کسی بہت ہی اپنے کی
آج پھر تلاش ہے
ایسے لگتا ہے جیسے
اکتوبر پھر اداس ہے
سب کچھ رائیگاں ھے اب
وہ کیسا شخص تھا یارو، جسے میں جان نہ پایا
"سب کچھ رائیگاں ھے اب" بہت رویا___بہت تڑپا، مگر اب رائیگاں تھا سب
کہ برسوں بعد اچانک آج___مجھے پھر ملنے وہ آیا
مگر اس چہرے پہ مجھ کو___یہ کیسا درد نظر آیا
کہا میں نے! کہو کیسے یہاں آنا ہوا تیرا
کہا اس نے! کتاب_زندگی اپنی___میں تم کو دینے آیا ہوں
میں اب نہ لوٹ پاؤں گا___یہ کہتے چل دیا وہ پھر
کتاب_زندگی میں میں___نصاب_زندگی ٹھہرا
عجب سی بات ھے نا یہ؟
سبھی کچھ میرے نام تھا___وہ زندہ تھا میری خاطر
عجب سی بات ھے نا یہ؟؟؟
وہ سوکھے پھول، وہ تحریریں
میں کیسے بھول پاؤں گا
وہی جذبے____وہی احساس
وہی چاہت____وہی اظہار
زباں سے کر سکا نہ وہ، قلم سے کر گیا سب کچھ
وہ بھی محسوس کرتا تھا___تپش میری محبت کی
مگر اظہار کا اس میں___کبھی نہ حوصلہ آیا
اور________
جھکی اسکی نگاھوں میں، میں خود کو دیکھ نہ پایا
میری بھی زندگی ھے وہ، میں کیسے اسکو کیسے بتلاؤں
کہ اب تو دیر ہو گئی ھے
میں اس سے دور ہوں اتنا___کہ خود کو بھی نہ مل پاؤں
یہ ملنا اب ادھورا ھے
یہ سب کچھ____رائیگاں ھے اب
مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں
مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں
مری زیست کے کسی موڑ پر جو مجھے ملا تھا بہار میں
وہی اک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں، مری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں،کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں
یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے یہ تو صرف بخت کی بات ہے
کوئی فاصلہ تو نہیں ،تری جیت میں مری ہار میں
ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ہے
کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں
کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تری طلب گداز میں نہ مرے ہنر کے وقار میں
میں جس سے پیار کرتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسے قسمیں نہیں دیتا
اسے شرطوں کے دروازے،
ہمیشہ بند رہنے والے دروازے تلک
ہرگز نہیں لاتا!
میں جس سے پیار کرتا ہوں
میں اس سے جھوٹ کہتا ہوں
میں اس سے پیار کرتا ہوں
میں اس سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں
میں اس سے پیار کرتا ہوں
میں اس کے جاننے پہچانے والوں کو
خاطر میں نہیں لاتا
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسے بےحد ستاتا ہوں
اسے بےحد رلاتا ہوں
میں اس کو نرم کرتا ہوں
یہ میرے پیار کرنے کا طریقہ ہے
میں شاید بےسلیقہ ہوں
مگر پھر بھی
وہ مجھ سے پیار کرتا ہے
میں جس سے پیار کرتا ہوں!