آنکھ لگتے ھی صدا دے کے جگاتا کیوں ھے
وہ مرے خواب کی زنجیر ھلاتا کیوں ھے
جس کا رشتہ ھے کوئی اب نہ تعلق مجھ سے
وہ غزل بن کے مری سوچ میں آتا کیوں ھے
اب بھی تنہائی میں اک یاد کی صورت مجھ کو
میرے ھونے کا وہ احساس دلاتا کیوں ھے
اپنی پلکوں پر سجا کر وہ مرے ھجر کی لَو
مجھ سے بیگانہ مری یاد مناتا کیوں ھے
وہ ھے پتھر تو مرے سر کی حفاظت کیسی
آئینہ ھے تو مرے زخم چھپاتا کیوں ھے
جس نے دیکھی نہ کوئی گردِ سفر بھی اب تک
داستاں اس کو مسافت کی سناتا کیوں ھے
راہ سورج کی بڑی دیر سے تکنے والے
آنکھ اب دھوپ کی شدت سے چراتا کیوں ھے
ھے کوئی بات پسِ ربط و تعلق ورنہ
شیشہ پتھر سے رہ و رسم بڑھاتا کیوں ھے
درد فہمی تجھے معلوم ھے جس کی رزمؔی
نِت اسے تازہ غزل اپنی سناتا کیوں ھے
No comments:
Post a Comment