Saturday, October 25, 2014

کاش ہم تم بھی اجنبی ہوتے

کاش ہم تم بھی اجنبی ہوتے،
جیسےدنیاکےلوگ ہوتےہیں
لاتعلق وفاسےبیگانے
اتفاقاََ کہیں جومل جاتے
راہ کترا کرہم نکل جاتے
نہ تصادم پہ دل مچل اٹھتا
نہ محبت کےدیپ جل پاتے
نہ توملنےکی آرزو ہوتی
نہ خوابوں کا تذکرہ ہوتا
نہ حسیں خط کبھی میں لکھ پاتا
نہ فسانوں کا سلسلہ ہوتا
نہ تغافل
نہ بے رخی
نہ ستم
نہ محبت کے امتحاں ہوتے
نہ شکستِ وفا کا غم ہوتا
یوں نہ آپس میں بدگماں ہوتے
سوچتا ہوں کبھی کبھی اکثر؟
تم سے الفت کی توکیا پایا
غم کے صحرامیں آج تنہا ہوں
کوئی ساتھی نہ کوئی ہمسایہ
کاش ہم تم بھی اجنبی ہوتے
جیسےدنیا کے لوگ ہوتے ہیں
لاتعلق وفا سے بیگانے

No comments:

Post a Comment