Thursday, October 23, 2014

اے شمعِ کوئے جاناں

اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا 
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا

ایسی ہی کسی شب میں 
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو

پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں 
بیتے ہوئے برسوں کا 
ایک ایک نشاں ہوگا 
بولے گا نہ کچھ لیکن ، فریاد کُناں ہوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راہی --------- وہ سوختہ پروانہ 
جب آئے یہاں اُس کو مایوس نہ لوٹانا 
ہو تیز ہوا کتنی ، لَو اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا -------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں اِک پھول نے کھلنا ہے !!
اُس نے انہی گلیوں میں ، اِک شخص سے ملنا ہے !!

No comments:

Post a Comment