Friday, October 31, 2014

بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے

بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے
جاتے ہوئے لمحوں کو صدائیں نہیں دیتے 

مانا یہی فطرت ہے مگر اس کو بدل دو 
بدلے میں وفاؤں کے جفائیں نہیں دیتے 

گر پھول نہیں دیتے تو کاٹتے بھی تو مت دو 
مُسکان نہ دینی ہو تو آہیں نہیں دیتے 

تم نے جو کیا، اچھا کیا، ہاں یہ گلا ہے 
منزل نہ ہو جس کی تو وہ راہیں نہیں دیتے 

یہ بار کہیں خود ہی اُٹھانا نہ پڑے کل 
اوروں کو بچھڑنے کی دعائیں نہیں دیتے

No comments:

Post a Comment