رستے کو سجائے بیٹھے ہو
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہو
یہ کون ہے جسکی آمد میں
یوں جشن منائے بیٹھے ہو
اب کون ہے تیری نظروں میں
میدان سجائے بیٹھے ہو
اجداد کی مانند اب تم بھی
کیا خواب جگائے بیٹھے ہو؟
اب راکھ سنبھالو تو بھی کیا
جب گھر کو جلائے بیٹھ ہو
دل ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا
کیوں سر کو جھکائے بیٹھے ہو
اب زخموں کو آرام کہاں
غیروں کو دکھائے بیٹھے ہو
کچھ خوشیوں کا سامان کرو
کیا شکل بنائے بیٹھے ہو
وہ درد کہانی بولے گی
جو دل میں چھپائے بیٹھے ہو
کیا بات ہے جو ان پلکوں کو
آپس میں ملائے بیٹھے ہو
اب تجھ سے جدائی نا ممکن
رگ رگ میں سمائے بیٹھےہو
ہم سے ہے کہاں پہ بھول ہوئی
جو بن کے پرائے بیٹھے ہو
وہ نام جو تجھ کو پیارا تھا
وہ نام بھلائے بیٹھے ہو
کچھ روگ پرانا ہے تجھ کو
جو دل میں بسائے بیٹھے ہو
احسان کہاں ویرانے میں
یہ دیپ جلائے بیٹھ ہو
Monday, October 27, 2014
رستے کو سجائے بیٹھے ہو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment