Sunday, April 30, 2017

ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ

ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ،
ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﻮﺳﻢ
ﮨﯿﮟ،
ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺲ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﻗﺎﺑﻞ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﻟﻤﺤﮯ
ﮨﯿﮟ ،
ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﮯ
ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻢ ﻻﮐﮫ ﺑﻼﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﯿﮟ ،
ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍُﻥ ﮐﯽ
ﭘﺎﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮐﭩﮭﻦ ﻟﻤﺤﻮﮞ
ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﮔﺮﺍﻧﯽ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮔﮩﺮﮮ
ﮨﯿﮟ ،
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮐﻨﺎﺭﮦ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﺎﻧﻮﮞ
ﮐﻮ
ﺗﻨﮑﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﭼﭩﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ
ﮐﭽﮫ ﺭﯾﺖ ﮔﮭﺮﻭﻧﺪﺍ ﭼﮭﻮﭨﺎ
ﺳﺎ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﻣﺜﺎﻝِ ﺍﺑﺮ ِﺭﻭﺍﮞ ،
ﮐﭽﮫ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﺎ
ﺳﺎﯾﺎ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﯽ
ﺻﻮﺭﺕ
ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻻ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮐﯽ
ﮐﺎﻟﮏ
ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﮧ ﺍُﭼﮭﺎﻻ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ،
ﺩﻭﮔﺎﻡ ﭼﻠﮯ ﺍﻭﺭ
ﺭﺳﺘﮯ ﺍﻟﮓ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﻧﺒﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﮍﮐﻦ
ﺳﮯ ﺍﻟﮓ
ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ
، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﺟﯿﻮﻥ
ﮐﯽ؟
ﺍﮎ ﺁﻧﮑﮫ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﮯ ،
ﺍﮎ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭُﺕ ﮨﮯ
ﺳﺎﻭﻥ ﮐﯽ
ﮨﻢ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ
، ﮨﻢ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ
ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ؟
ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺟﻮ ﺭﺳﺘﮧ ﺗﮑﺘﺎ
ﮨﮯ ۔
ﮨﻢ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ
ﺣﺎﺻﻞ ﮨﯿﮟ؟
ﮐﺲ ﮐﺲ ﮐﺎ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺩﺍﻣﻦ
ﮨﻢ
ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮐﻮ
ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ؟
ﮨﻢ ﮐﮭﻮﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﮐﻦ ﺭﺍﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ،
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺻﺎﺣﺐ
ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﮟ
ﮐﭽﮫ ﺩﺭﺩ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﺳﯿﻨﮯ
ﻣﯿﮟ ،
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﻟﭩﺎﺋﮯ
ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﮔﻨﻮﺍﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ،
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮐﻤﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ﻧﮯ
ﺩﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ
ﺟﺎﮞ ﮐﮭﻮﺋﯽ ﮨﮯ ، ﻏﻢ ﭘﺎﯾﺎ
ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾﺎ
ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ

ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﺮ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ

ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻟﻔﻆ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ
ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺣﺮﻑ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﻮ
ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﻮ
ﺣﺴﯿﻦ ﺍﮎ ﺭﻧﮓ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ
ﺗﮩﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﺟﺴﮯ ﺗﻢ ﯾﻮﮞ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ
ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ؟
ﺑﮭﻼ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ ؟
ﺟﻮ ﯾﻮﮞ ﻧﯿﻨﺪﯾﮟ ﭼﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ
ﺑﮭﻼ ﻭﮦ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﭘﯿﮑﺮ
ﺫﺭﺍ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﻼﺋﻮ
ﺑﮭﻼ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﮨﻤﺪﻡ ؟

ﻣﯿﮟ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍُﺳﮯ ﺑﯿﭽﯿﻦ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﯾﻮﮞ ﺳﺘﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ

ﻭﮦ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺧﻮﻑ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﺩﯾﺮ ﻧﺎ ﮐﺮﺩﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ
ﮐﮯ ﺑﮩﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺩﮬﺎﺭﺍ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ
ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ

ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﻮﮞ ﯾﮧ ﺍﺏ
ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﻮﻑ ﻻﺣﻖ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﻣﭩﮭﯽ ﺍﺏ
ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﺮ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ

لفظ چلنے لگتے ہیں

رات کے اندھیرے میں
لفظ چلنے لگتے ہیں
کوٹ کی جیب میں رکھے
کاغزوں سے اتر کر
میز کی درازوں سے
اور کچھ کتابوں سے
حرف چُن چُن کر
اِک دوجے کو
آگے پیچھے کرتے ہیں
اپنے اپنے اندر
چھپے جزبوں کو
ترتیب دینے لگتے ہیں
جو کبھی نہ کر پائے
تسخیر کرنے لگتے ہیں
جگنوؤں کی مانند
روشنی کے
سفیر لگنے لگتے ہیں ___
اپنے اپنے حِصّے کی
تھیلیاں رفاقت کی
جو کسی کی چاہت میں
کسی نے
کاغزوں میں لپیٹ کر
رکھ چھوڑی تھیں
لیے لیے
پھرتے ہیں ___
ایک دوسرے کے
آنسو پونچھتے پونچھتے
خود بھی رونے لگتے ہیں
دوڑتے بھاگتے
ننھے ننھے نقطوں کو
باہوں میں
سمیٹنے کی خواہش میں
دائرے بنانے لگتے ہیں___
دھیرے دھیرے
چلتے ہیں
کون انکی سنتا ہے
کون انکے ہونے کی
دلگیر حقیقت کے
آئینے میں
اپنی صورت تکتا ہے ___
اپنی اپنی بولیوں میں
آتی جاتی ساعتوں کی
مِنت سماجت میں
کٹ کٹ کے گرتے ہیں
سارے کمرے میں
گُھسر پُھسر ہونے لگتی ہے
میری آنکھ کھلتے ہی
اپنی اپنی جگہ پر
سب ٹھٹھک سے جاتے ہیں
رات کے اندھیرے میں
لفظ چلنے لگتے ہیں___

(عظمیٰ طور)

عدل کا سایہ

اُس ترازو سے مجھے خون کی بُو آتی ہے
یک زباں ہو کے مرے پیارے وطن کے باسی !!
جِس کے جھکتے ہوئے پلڑے کو خُدا کہتے ہیں
ساری تعزیریں یتیموں پہ لگانے والی !!
تختہ دار پہ مہروں کو چڑھانے والی !!
سارے شیطانوں کو مسند پہ بٹھانے والی !!
تُم کہو شوق سے اُس جا کو عدالت لوگو
کالے کرتوتوں کو تُم کہہ دو وکالت لوگو
میں اُسے کہتا ہوں زرداروں کی گندی منڈی !!
جس جگہ چلتے ہوں منصف بھی رکھیلوں کی طرح !!
جس جگہ اندھے گواہوں کی فراوانی ہو
اُس جگہ عدل کا سایہ بھی نہیں مِلتا کبھی !!
جس جگہ زَر ہو خُدا زَر کی ثناخوانی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی

لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے

وہ جو ہم سے بیاں نہیں ہوتے
لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے
کوئی سمجھے تو بولتے ہیں مگر
درد اہلِ زباں نہیں ہوتے
دُشمنی دوستی سے بہتر ہے
دُشمنی میں گُماں نہیں ہوتے
ہم سے مِلنا ہے تو پَلٹ جائیں
بَخُدا ہم یہاں نہیں ہوتے
فِکر نہ کر، کہ جب تلک ہم ہیں
غم تیرے بے اماَں نہیں ہوتے
میرے گھر کے مکِین ہیں سارے
حادثے بے مکاں نہیں ہوتے
لوگ لوگوں کی جان لیتے ہیں
لوگ لوگوں کی جاں نہیں ہوتے
چھوڑئیے، اب تو مر چُکا وہ شخص
مُردوں سے بدگُماں نہیں ہوتے
جانے کیسا آسیب ہے گھر میں
میرے بچے جواں نہیں ہوتے
بقصدِ حُرمت صدا نہیں دیتا
آپ ورنہ کہاں نہیں ہوتے
عشق گھاٹے کا کاروبار نہیں
چاہتوں میں زیاں نہیں ہوتے
غم ہیں خوددار کس قدر میرے
چہرے سے عیاں نہیں ہوتے
باتیں دل کی میں دل میں رکھتا ہوں
کیونکہ دل آتش فشاں نہیں ہوتے
جن پہ دُنیا تمام ہو جاۓ
اُن سے آگے جہاں نہیں ہوتے
ہم بھی خاموش رہتے گر قائم
وارثِ نوکِ سِناں نہیں ہوتے

سید علی نقوی

کچھ ۰۰۰ یاد رہا کچھ ۰۰۰بھول گۓ

کچھ ۰۰۰ یاد رہا
کچھ ۰۰۰بھول گۓ

دن رات کےاس
جھمیلے  میں
رنگوں کےمیلے
ٹھیلے میں 
ہم کرنے
کیا کچھ آۓ تھے۰۰ دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

اس امت میں
ہیں شامل سب 
جس منصب پر
ہیں فائز اب
اس کام کو کرنا
کیسے ہے۰۰؟
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

جس ذات پہ ہے
ایمان بہت
اس رب کے ہیں
پیمان بہت
ہم عہد بھی
کر کے آۓ تھے
کہ شاہد ہیں
ہم حاضر ہیں
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

سب رشتے
ناطے اپنے ہیں
ماں باپ بہن ہیں
بھائ ہیں
تایا بھی ہیں
ماموں بھی ہیں
نانا نانی اور
دادی  ہیں
خالہ پھپھی
چچی بھی ہیں
کس پر۰۰۰۰
کس کا ہے ۰۰۰
حق کتنا ۰۰۰۰
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ 

کیا فرض
نبھانا ہےلازم ؟
کیوں سنت
کو اپنانا ہے ؟
یہ مال و زر کے
ڈھیر بہت کس تک
ان کوپہنچانا ہے؟
یہ محلوں سے آباد نگر
آخر کس کو
دے جانا ہے ؟
یہ سانس تو
گنتی کے ہی ہیں
جب پورے ہوتے
ہیں لمحے
تو واپس  گھر
بھی جانا ہے
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

قرآن نے یہ بتلایا ہے
کہ فکر کرو
اس لمحے کی
جب دنیا نے
رہ جانا ہے
اور ساتھ
عمل نے جانا ہے
پھر کیا کچھ لے
کر جائیں گے ؟
اور کیا پیچھے
رہ جانا ہے ؟
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

یہاں پہ
جیسے جیتے ہو
پھر ویسے
اک دن جانا ہے
پھر اپنا
عہد نبھانا ہے
اب سوچو !
کیا کچھ پانا ہے
کیا یوں ہی
جیتے جیتے بس
آخر اک دن
مر جانا ہے ؟
اس کی بھی
کچھ تیاری ہو 
کہ سج دھج کے
یوں جانا ہے
کہ لینے والے
آئیں تو ۰۰۰
بس !
ایسا قولِ ثابت ہو 
کہ پھر نہ
یہ پچھتاوا ہو
دنیا کے گورکھ
دھندے میں
کچھ یاد رہا
کچھ بھول گۓ

⭐✨

Thursday, April 27, 2017

آنکھیں بھی برستی ہیں

کھڑکیوں کے شیشے پر
رینگتے ہوئے قطرے
یوں پھسلتے ہیں جیسے
میرے اور بادل کے
درمیان کوئی ہے
جو میرے اور بادل کے
راز کو سمجھتا ہے
جب گھٹائیں چھائیں تو
صرف وہ نہیں روتیں
آنکھیں بھی برستی ہیں
کھڑکیاں بھی روتی ہیں

ہَمیں دَریافت کَرنے سے،ہَمیں تَسخِیر کَرنے تَک،

ہَمیں دَریافت کَرنے سے،ہَمیں تَسخِیر کَرنے تَک،
بَہُت ہیں مَرحَلے باقی،ہَمیں زَنجِیر کَرنے تَک،
ہَمارے ہِجَر کے قِصّے،سَمیٹو گے تو لِکھّو گے،
ہَزاروں بار سوچو گے،ہَمیں تَحرِیر کَرنے تَک،
ہَمارا دِل ہے پَیمانَہ،سو پَیمانَہ تو چھَلَکے گا،
چَلو دو گھُونٹ تُم بھَر لو،ہَمیں تاثِیر کَرنے تَک،
پُرانے رَنگ چھوڑو آنکھ کے،اِک رَنگ ہی کافی ہے،
مُحَبَّت سے چَشم بھَر لو،ہَمیں تَصوِیر کَرنے تَک،
ہُنَر تَکمِیل سے پَہلے،مُصَوَّر بھی چھُپاتا ہے،
ذَرا تُم بھی چھُپا رَکھّو،ہَمیں تَعمِیر کَرنے تَک،
وُہ ہَم کو روز لُوٹتے ہیں،اَداؤں سے بَہانوں سے،
خُدا رَکھّے! لُٹیرے کو،ہَمیں فَقِیر کَرنے تَک،
رزب! جو مُجھ میں شاعِر ہے،وَصف میں یار جَیسا ہے،
یہ آنسُو چھوڑتا جاتا،ہَمیں دِل گِیر کَرنے تَک...!

عشقِ کامل

سُنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے احساس کی چلمن پر
سخت پہرا ہوتا ہے
سنا ہے دل کی بستی میں
بس اک موسم ٹھرا ہوتا ہے
سنا ہے رات کے جگنو بھی
تارے دکھائی دیتے ہیں
سنا ہے دل کو لگ جاتا ہے قفس
بس اک شخص کا پہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے لوگ اس میں غم بھی سنبھل لیتے ہیں
سنا ہے تڑپ کر بھی اسی کا نام لیتے ہیں
سنا ہے بے خود ان کو مے کر نہیں پاتی
سنا ہے عشق کا در جو دل تھام لیتے ہیں
سنا ہے جو ہستی کردے فنا عشق میں
سنا ہے بندگی کا سر اسی کے سہرا ہوتا ہے
سنا ہے ڈوبنے والوں کا اس میں
رنگ سُنہرا ہوتا ہے
سنا ہے لاکھ چہروں میں بھی
مطلوب اِک چہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشق کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﺩﻋﻮﮮ ﺳﺒﮭﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ

ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﻣﻮﮌ ﭘﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ
ﻟﻮﮒ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﮏ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺑﺪ ﺗﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ
ﺍﮐﮭﭩﮯ ﺩﺭﺩ ﺳﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ . .
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯽ
ﺣﺪﻭﮞ ﺗﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ . .
ﺟﻮﻧﮩﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻟﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﺩﻋﻮﮮ ﺳﺒﮭﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ
ﺳﺒﮭﯽ ﻭﻋﺪﮮ
ﺳﺒﮭﯽ ﺭﺳﻤﯿﮟ
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ … .
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ

جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں

ابھی جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں
ابھی تو ہجر کے دشت و بیاباں پار کرنے ہیں ،،،،،
ابھی ان ریگزاروں میں
لہو بہنا ھے وعدوں کا ،،،،
ابھی راہوں کے سب کا نٹےمجھے پلکوں سے چننے ہیں
ان پر خار راہوں میں
مجھے تنہا نہیں چھوڑو
ان پر پیچ راہوں پہ مجھے چلنا نہیں آتا ،،
تمہیں معلوم ہے تم بن
سنبھلنا بھی نہیں آتا ۔
رسیور میں مقید ہیں
تمہارے رس بھرے لہجے ،،،
ابھی پاؤں سے لپٹے ہیں
وصال و قرب کے لمحے
ہمارے درمیاں رشتے ابھی نازک سے دھاگے ہیں
یہ کار ِ زیست کے ریشم
ابھی الجھے ھوئے ہیں سب
انہیں جھٹکے سے مت کھولو
یہ سارے ٹوٹ جائیں گے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ
تمہارے اجنبی لہجے سے اب محسوس ہوتا ہے
محبت روٹھ بیٹھی ہے
۔۔ جدائی آن پہنچی ہے ،،،،
تمہیں معلوم ہے نا کہ اندھیرو ں سے میں ڈرتی ہوں
پلٹنا گر ضروری ھے مجھے کچھ خواب ہی دے دو ،،،
ان ہی خوابوں کی مشعل سے
جدائی کے اندھیروں کی
مسافت طے کروں گی اب
تمہاری روح میں اٹکی
مری سانسوں کی یہ ڈوری
کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے
انہیں پورا تو ہونے دو ابھی تم دور مت جاؤ
سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ ابھی رستہ نہیں بدلو ،،،،
ابھی تو ٹھیک سے مجھکو سنبھلنا بھی نہیں آتا ،،،،
تمہیں معلوم ہے مجھکو بچھڑنا بھی نہیں آتا۔۔

میں کب کا خود سے بچھڑ چکا ہوں.

بچھڑنے والے...
تجھے خبر ہے؟؟؟
کہ تیرے جانے سے میرا جیون,,,
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہے...
تجھے خبر ہے بچھڑنے والے...
کہ میری خوشیاں ہی کھو گئی ہیں,,,
میں کتنا تنہا سا ہوگیا ہوں...
وجود میرا تو اس سفر میں,,,
یہ دیکھ زخموں سے اَٹ گیا ہے...
میں سوچتا ہوں!!!
مگر یہ سوچیں,,,
کیوں ایک نقطے پہ جم گئی ہیں...
کیوں لگ رہا ہے!!!
کہ جیسے سانسیں ہی تھم گئی ہیں!!!
مجھے بتا دے بچھڑنے والے!!!
کہ کیسے خود کو سنبھالنا ہے...
ہجر کے رستے پہ چلتے چلتے,,,
یہ میرے پاؤں لہو لہو ہیں...
یقین کر لے میں تھک گیا ہوں...
بچھڑنے والے!! تجھے خبر ہے...
میں کب کا خود سے بچھڑ چکا ہوں.

نیند پھر بے مراد لوٹ آئی۔

آنکھ کے نیم وا دریچے پر
نیند نے دستِ مرمریں رکھا
اور اِک دل فریب دستک دی.

کوئی سنتا تو دیکھنے آتا

بارہا دستکوں سے اکتا کر
اُس نے بے اِذن جھانکنا چاہا
پھر جو جھانکا تو آنکھ کے اندر
تیری یادوں کا ایک میلہ تھا

وحشتیں محوِ رقص پھرتی تھیں

رتجگے ہر طرف تماشائی
ایک آنسو میں قید ..تنہائی

آنکھ کے نیم وا دریچے سے
ایک ساعت میں دیکھ کر سب کچھ

نیند پھر بے مراد لوٹ آئی۔ ۔ ۔

روشنی مِزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے

روشنی مِزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگِی کے رستوں میں بِچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تِنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبُوئیں پکڑنے میں، گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں

عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کا قتل کرتے جاتے ہیں
درگذر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں

یہ نہیں انکو اِس روز و شب کی کاوش کا
کچھ صِلہ نہیں ملتا!!
مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں جسِقدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مِل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں مِلتیں! وقت پر نہیں آتیں

یعنی اُنکو مِحنت کا اجر مِل تو جاتا ہے
لیکن اِس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قِسط قِسط ہو جائے!
اصل جو عبارت ہو پسِ ناوشت ہو جائے
فصلِ گلُ کے آخِر میں پھول اُن کے کھِلتے ہیں
اُن کے صِحن میں سُورج دیر سے نِکلتے ہیں
(امجد اسلام امجد )

ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﻧﮧ ﮐﺮ

ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎﺍ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﮭﭙﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ
ﮐﮯ ﺳﺘﺎﺭﮮ
ﻧﮧ ﭼﻦ
ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺴﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﺻﻞ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺴﯿﮟ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﻧﮧ ﺑﻦ
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﭘﮧ ﻣﺖ ﺟﺎ
ﮐﮧ ﻧﺎ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﻟﻔﻆ ﻓﺼﻞِ ﺧﺰﺍﮞ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺯﺭﺩ ﭘﺘﻮﮞ
ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺗﻠﻮﻭﮞ ﭘﮧ ﯾﺎﻗﻮﺕ ﻭ ﻣﺮﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ
ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯽ ﻧﭽﮭﺎﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﯾﺌﮯ ﻣﺖ
ﺟﻼ
ﺍﭘﻨﮭﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﭙﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺷﺖ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﺟﮩﺖ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﮯ ﺑﮕﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ
ﺷﻔﺎﻑ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﺸﻢ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﮕﻨﻮﺅﮞ ﮐﮯ
ﮔﮩﺮ ﻣﺖ ﺳﺠﺎ
ﻣﺖ ﺳﺠﺎ ﺳﺎﺯﺷﯽ ﺳﻮﺭﺟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﺳﺨﻦ ﺁﺋﯿﻨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ
ﺳﺒﮭﯽ ﺫﺍﺋﻘﮯ
ﺳﺐ ﺭﺗﯿﮟ
ﺩﮬﻮﭖ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﮔﺮﺩ ﮐﯽ ﺗﮩﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﮯ
ﺑﻨﺘﮯ ﺑﮕﮍﺗﮯ ﺧﺪ ﻭ ﺧﺎﻝ ﮐﺎ
ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮦ ﺳﻤﺠﮫ
ﮔﺮﺩﺵ ﺭﻭﺯ ﻭ ﺷﺐ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺳﻤﺠﮭﮧ
ﺩﯾﮑﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﻠﺘﯽ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﺦ ﺑﺴﺘﮕﯽ ﭘﮧ ﺳﺮ ﺷﺎﻡ
ﺳﻮﭼﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﻣﺠﮭﮧ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺁ
ﻣﯿﺮﮮ ﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﺑﻦ
ﺳﻨﻮﺭ
ﻣﺠﮭﮧ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﺣﺬﺭ
ﻣﺠﮭﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﻤﺠﮫ
ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﭘﻨﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﺳﻤﺠﮫ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ
ﺗﯿﺮﮮ ﺭﻭﭨﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻔﻆ
ﮔﺠﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﻮﻝ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﻧﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮩﺮ
ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﭻ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﻧﮧ ﮐﺮ

مجھے معلوم کر لینا

کسی بجھتی ہوئی تاریخ کے ان حاشیوں کے اندر
جہاں کچھ ان کہی باتیں
ہمارے مشترک احساس کی تسبیح شاید اب بھی پڑھتی ہوں
مجھے لوگوں کے قصّوں میں نہ ملنا
اس کہانی کی طرف جانا
کہ جو تم نے ابھی لکھّی نہیں ھَے
صرف سوچی ھے .. !!
کبھی باہر گلی سے
گھر سے
یا دنیا کے دروازوں سے آتے شور سے تم تنگ آ جاو
تو کانوں سے نہ لڑ پڑنا
مجھے سننا
مِری آواز تم کو خامشی کے معبدوں کی یاترا پر لے کے جائے گی .. !
اگر یہ زندگی اپنے سوالوں میں کوئی خالی جگہ لائے
تمھیں محسوس ہو اب وقت بالکل بھی نہیں ھے
سوچنا مت
اور مجھے تحریر کر لینا
میں ہر خالی جگہ میں کام آوں گا .. !
(مجھے یہ نظم لکھتے وقت جن مصرعوں سے بچنا پڑ رھا ھے
خود سمجھ لینا)
کبھی بیٹھے بٹھائے
بے خیالی میں تمھاری انگلیاں ازخود تمھارے ہونٹ چھو جائیں
تو شرمندہ نہ ہونا
مسکرا دینا
یقیں کرنا
وہ لمحہ مجھ سوا کوئی نہیں ہو گا
اسے منظوم کر لینا
مجھے معلوم کر لینا ۔۔۔۔ !!
______
نامعلوم

Saturday, April 22, 2017

ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺷﮯ ﮐﺴﯽ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﺪ ﮨﻮﮞ ﺍﮎ
ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﺫﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺏ ﺫﺍﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ
ﺁﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ دیکھتا ﮨﻮﮞ
ﮐﺘﻨﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ
ﻭﮨﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﺣﯿﺮﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ !
ﮔﺮﺩ ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﺷﺎﮨﮑﺎﺭ
ﭘﺎﺑﮧ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻣﺠﮫ ﺗﻠﮏ ﺁﺋﯽ
ﺍﻭﺭ
ﺳﺮﮔﻮﺷﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﮐﮯ ﮔﺌﯽ
ﻋﺎﻟﻢ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺷﮯ ﮐﺴﯽ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﺍبھی ﺧﺎﺻﺎ ﻗﺮﺽ ﭼﮑﺎﻧﺎ ﮬﮯ

ﮐُﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮬﻴﮟ ﺟِﻦ ﮐﻮ ﻟِﮑﮭﻨﺎ ﮬﮯ
ﺗﻌﺒﻴﺮ کی ﺻﻮﺭﺕ ﺩینی ﮬﮯ
ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﮬﻴﮟ ﺍُﺟﮍﮮ ﺩِﻝ ﻭﺍﻟﮯ
ﺟِﻨﮩﻴﮟ ﺍپنی ﻣﺤﺒﺖ ﺩینی ﮬﮯ
ﮐﭽﮫ ﭘُﮭﻮﻝ ﮬﻴﮟ ﺟِﻦ ﮐﻮ ﭼُﻨﻨﺎ ﮬﮯ
ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺭ کی ﺻُﻮﺭﺕ ﺩینی ﮬﮯ
ﮐﭽﮫ ﺍپنی ﻧﻴﻨﺪﻳﮟ ﺑﺎقی ﮨﻴﮟ
ﺟِﻨﮩﻴﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﮬﮯ ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﻴﮟ
ﺍُﻥ ﮐﻮ بھی ﺗﻮ ﺭﺍﺣﺖ ﺩینی ﮬﮯ
ﺍﮮ ﻋﻤﺮ ﺭﻭﺍﮞ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻞ
ﺍبھی ﺧﺎﺻﺎ ﻗﺮﺽ ﭼﮑﺎﻧﺎ ﮬﮯ

Sunday, April 16, 2017

دکھوں پر ماتم منانے سے

)

    دکھوں پر ماتم منانے سے
    سرِ بزم تماشا بنانے سے
    ہزار واویلے مچانے سے
    کیا کبھی کچھ بھی ہوتا ہے
    دکھ ایک اثاثہ ہے
    جو تم سے لے لیا یا پھر
    جو تم تک نہیں پہنچا
    رضاۓ رب کا خاصہ ہے
    تو ہو غمزدہ سے کیوں
    کہو یہ شکستگی کیسی
    کہو یہ آشفتگی کیسی
    تم تو صبر کے قائل تھے
    رضاۓ رب پر مائل تھے
    پھر یہ شکایتیں کیسی
    کہو یہ رنجشیں کیسی

    ہاں انسانی فطرت میں بھی سمجھتی ہوں'
    کہ ایک گہرا دکھ تو ہوتا ہے
    کئی آنسو مچلتے ہیں
    کئی شکوے پنپتے ہیں
    اضطرابِ مسلسل ہے
    کئی جذبوں کی ہلچل ہے
    مگر ۔۔ ہر حال میں شکرِ خدا کا حلف جو تم نے اٹھایا تھا
    کہو ۔۔ کیا اسکو نبھایا ہے

    کیا رب سے بڑھ کر مخلص یہاں تم نے کسی کو بھی پایا ہے
    رب کی ہر رضآ میں
    ہر قضا میں
    ہر سزا میں
    ہر جزا میں
    یقین مانو حکمت اک پوشیدہ ہے
    اور حکمت میں فقط محبت پوشیدہ ہے
    جسے ابھی تم نہیں جانو
    ہاں پر جان جاؤ گے۔۔!

    تو جس دن جان جاؤ گے؟
    کیا رب کو اس دن سراہو گے؟
    کیا اسی دن دکھ بھلاؤ گے؟
    اسی دن سجدے میں دل جھکاؤ گے؟
    تو کیا اس سے قبل تم نہ مسکراؤ گے؟
    کہو یہ کیسی وفائیں ہیں؟
    کیسی جفاکش ادائیں ہیں؟
    میری ایک بات مانو گے؟
    دو آنسو بہاؤ تم ۔۔
    جملہء قضاء کہہ دو ۔۔
    پھر مسکرا کر شکرِ خدا کہہ دو!

    دکھ کی تدفین کر ڈالو۔۔!
    اس پر اشکِ صبر کی کچھ نمی ڈالو
    ہاں دکھ کو دعا میں یاد رکھنا تم
    کہ جب جب دعا کو ہاتھ اٹھیں گے
    تم رب کو بہت قریب پاؤ گے
    راز ایک کہوں تم سے
    بےجا دکھ نتیجہء لاحاصل توقع ہے
    در حقیقت یہ رستہ صبر کا ہے
    کیوں دروازہ یہ خود پر بند کرتے ہو
    قرب اللہ کا یہ بہانہ
    کیوں خود پر تنگ کرتے ہو
    دکھ کو کیوں وبالِ جان کرتے ہو
    گر اتنا عزیز ہے تو اثاثہ بنا لو ناں
    تم دکھ کو بھی رضاۓ رب سمجھ کر مسکرا لو ںاں۔۔!

خسارہ چھین لیتا ہے

بنا کر اپنی ٹھوڑی کو سجا کر اشک آنکھوں میں
ذرا سا غم بتاتا ہوں وہ سارا چھین لیتا ہے
.
کبھی رہنے نہیں دیتا سوالی غیر کے آگے
مجھے چلنا سکھانے کو سہارا چھین لیتا ہے
.
مجھے حاجت نہیں کوئی کہ پُوچھوں زائچہ اپنا
جو دُشمن ہو فلک سے وہ ستارا چھین لیتا ہے
.
فرشتے بھیج دیتا ہے اُسے بہلانے دُنیا میں
کسی بچے سے کوئی جب غبارا چھین لیتا ہے
.
میں اپنے رب کی رحمت کا کروں کیا تذکرہ عابی
منافع مجھ کو دیتا ہے خسارہ چھین لیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
(عابی مکھنوی)

ﺍُﺟﺎﮌ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ..

ﺍُﺟﺎﮌ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ..، ﻭﮦ ﺧﺎﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﮨﻮ، ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﻧﮧ ﭼﮭﻮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ، ﯾﻮﮞ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻃُﻮﻝ ﺩﯾﻨﺎ
ﻧﺼﯿﺐ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﻏﺎ ﮨﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ،...... ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺍﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ، ﺩﻏﺎ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﮨﻮ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﺭﺯﻭ ﮨﮯ..، ﮐﮧ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﺳﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺯﮨﺮ ﺭﺳﺎﮞ ﮨﯿﮟ،..... ﺟﻮ ﺭﻭﺯ ﮨﻢ ﭘﮧ ﺗﻤﺎﺷﺒﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﮨﮯ، ﻣﻠﻦ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﻮ ﭘﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﻧﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﺱ ﺭﮐﮭﻨﺎ....، ﻧﮧ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺩﺍﺱ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﭙﻨﮯ ﺟﮭﻠﺲ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﻧﮧ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻟﻮ......، ﻭﻓﺎ ﺷﻌﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺫﻭﻕ ﭼﮭﻮﮌﻭ
ﺳﻨﺒﮭﻞ ﺍﮮ ﻣﺤﺴﻦ ﯾﻮﮞ ﺑﮯ ﺳﺒﺐ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ

بُھلا دینا ہی بہتر ہے

عجب اپنا تعلق تھا
میں لفظوں کا تھا جادوگر
تو احساسوں کی رعنائی
سراپا میں تھا پاگل پن
سراپا تو تھئ دانائی
تُو ہنگامہ، میں ویرانہ
تُو محفل تھی میں تنہائی
عجب اپنا تعلق تھا
میں آنکھیں تھا تو بینائی
مگر قسمت میں لکھا تھا
نہ تُو میری، نہ میں تیرا
بڑی واضح حقیقت تھی
حیا کی پاسداری میں
محبت ہار جاتی ہے
مگر منہ زور جذبوں پر
کسی کا بس نہیں چلتا
ابھی اُس موڑ پر ہم ہیں
جہاں سے لُوٹ جانا ہی
شعوری فیصلہ ہوگا
کہ ٹھنڈی آہیں بھرنے سے
بچھڑ جانا ہی بہتر ہے
مجھے تُم بے وفا کہہ کر
بُھلا ہی دو تو بہتر ہے
وگرنہ دل میں کھٹکے گی
محبت مر کے بھٹکے گی

"بڑا ہی لالچی تھا میں
حوس کا میں بپجاری تھا
محبت ڈھونگ تھی میری
کسی بے جان شئے جیسی
مجھ تیری ضرورت تھی"

تجھے جیسے سہولت ہو
وہی الزام دے دینا
محبت کی نمائش کا
دیا بجھنے لگا ہے اب
بُجھا دینا ہی بہتر ہے

بُھلا دینا ہی بہتر ہے

محبت کیا ہے ؟

محبت کیا ہے ؟
چلو تم کو بتاتا ہوں
جہاں تک میں سمجھ پایا
وہاں تک ہی بتاتا ہوں
محبت آسمانوں سے اترتی ایک آیت ہے
میرے رب کی عنایت ہے
کہیں لے جائے موسیٰ کو
تجلی رب کی دکھلانے
کہیں محبوب کو عرشوں پہ اپنے رب سے ملوانے
کہیں سولی چڑھاتی ہے
کسی منصور سرکش کو
کہیں یہ بیٹھ کر روتی ہے پھر شبیر بے کس کو
لگا کر آگ پانی میں
ہوا میں زہر گھولے گی
کرے گی رقص شعلوں پر
مگر کب بھید کھولے گی
کہیں یہ ایڑیاں رگڑے .... تو زم زم پھوٹ پڑتے ہیں
نظر کر دے جو پتھر پر
تو پتھر ٹوٹ سکتے ہیں
کہیں یہ قیس ہوتی ہے
کہیں فرہاد ہوتی ہے
کہیں سر سبز رکھتی ہے
کہیں برباد ہوتی ہے
کہیں رانجھے کی قسمت میں لکھی اک ہیر ہوتی ہے
یہ بس تحریر ہوتی ہے
کہاں تقدیر ہوتی ہے ....؟
کہیں ایثار ہوتی ہے
کہیں سرشار ہوتی ہے
وہیں یہ جیت جاتی ہے
جہاں یہ ہار ہوتی ہے
محبت دل کی دیواروں سے لپٹی کائی جیسی ہے
محبت دل نشیں وادی میں اندھی کھائی جیسی ہے
سنو .....!!
تم بھی محبت کو کہیں ہلکا نہیں لینا
اگر اپنی پہ آ جائے
تمہیں صحرا نشیں کر دے
اٹھا کر آسمانوں سے تمہیں پل میں زمیں کر دے
کسی کو دان دیتی ہے
کسی کی جان لیتی ہے
اگر کندن میں ڈھالے تو
سمجھ لینا یہ خالص ہے
من و تو ناں بھلاے جو
تو پھر سمجھو کہ ناقص ہے
دل _ برباد یہ روشن تمہارا کرکے چھوڑے گی
لکھے گی درد ماتھے پر
ستارا کر کے چھوڑے گی....