وہ جو ہم سے بیاں نہیں ہوتے
لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے
کوئی سمجھے تو بولتے ہیں مگر
درد اہلِ زباں نہیں ہوتے
دُشمنی دوستی سے بہتر ہے
دُشمنی میں گُماں نہیں ہوتے
ہم سے مِلنا ہے تو پَلٹ جائیں
بَخُدا ہم یہاں نہیں ہوتے
فِکر نہ کر، کہ جب تلک ہم ہیں
غم تیرے بے اماَں نہیں ہوتے
میرے گھر کے مکِین ہیں سارے
حادثے بے مکاں نہیں ہوتے
لوگ لوگوں کی جان لیتے ہیں
لوگ لوگوں کی جاں نہیں ہوتے
چھوڑئیے، اب تو مر چُکا وہ شخص
مُردوں سے بدگُماں نہیں ہوتے
جانے کیسا آسیب ہے گھر میں
میرے بچے جواں نہیں ہوتے
بقصدِ حُرمت صدا نہیں دیتا
آپ ورنہ کہاں نہیں ہوتے
عشق گھاٹے کا کاروبار نہیں
چاہتوں میں زیاں نہیں ہوتے
غم ہیں خوددار کس قدر میرے
چہرے سے عیاں نہیں ہوتے
باتیں دل کی میں دل میں رکھتا ہوں
کیونکہ دل آتش فشاں نہیں ہوتے
جن پہ دُنیا تمام ہو جاۓ
اُن سے آگے جہاں نہیں ہوتے
ہم بھی خاموش رہتے گر قائم
وارثِ نوکِ سِناں نہیں ہوتے
سید علی نقوی
Sunday, April 30, 2017
لفظ اتنے آساں نہیں ہوتے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment