رات کے اندھیرے میں
لفظ چلنے لگتے ہیں
کوٹ کی جیب میں رکھے
کاغزوں سے اتر کر
میز کی درازوں سے
اور کچھ کتابوں سے
حرف چُن چُن کر
اِک دوجے کو
آگے پیچھے کرتے ہیں
اپنے اپنے اندر
چھپے جزبوں کو
ترتیب دینے لگتے ہیں
جو کبھی نہ کر پائے
تسخیر کرنے لگتے ہیں
جگنوؤں کی مانند
روشنی کے
سفیر لگنے لگتے ہیں ___
اپنے اپنے حِصّے کی
تھیلیاں رفاقت کی
جو کسی کی چاہت میں
کسی نے
کاغزوں میں لپیٹ کر
رکھ چھوڑی تھیں
لیے لیے
پھرتے ہیں ___
ایک دوسرے کے
آنسو پونچھتے پونچھتے
خود بھی رونے لگتے ہیں
دوڑتے بھاگتے
ننھے ننھے نقطوں کو
باہوں میں
سمیٹنے کی خواہش میں
دائرے بنانے لگتے ہیں___
دھیرے دھیرے
چلتے ہیں
کون انکی سنتا ہے
کون انکے ہونے کی
دلگیر حقیقت کے
آئینے میں
اپنی صورت تکتا ہے ___
اپنی اپنی بولیوں میں
آتی جاتی ساعتوں کی
مِنت سماجت میں
کٹ کٹ کے گرتے ہیں
سارے کمرے میں
گُھسر پُھسر ہونے لگتی ہے
میری آنکھ کھلتے ہی
اپنی اپنی جگہ پر
سب ٹھٹھک سے جاتے ہیں
رات کے اندھیرے میں
لفظ چلنے لگتے ہیں___
(عظمیٰ طور)
No comments:
Post a Comment