ہمارے ہاتھ خالی ہیں
مقدر سے اُلجھتی اَن گِنت اِن میں لکِیریں ہیں
لکِیروں میں کہانی ہے
ہماری زندگانی ہے
مگر پِھر بھی یہ لگتا ہے، ہمارے ہاتھ خالی ہیں
کہیں ماضی نمایاں ہے، کہیں اَسباب دِکھتے ہیں
جو ہم اب جھیلتے ہیں وہ سبھی حالات دِکھتے ہیں
جو پَل اب تک نہیں آئے، وہ سب اِن میں سمائے ہیں
مگر سب کچھ پوشیدہ ہے، سبھی اَدوار مبہم ہیں
ہمارے آنے والے پَل، ہمارے ہاتھ میں گُم ہیں
مگر پھر بھی یہ لگتا ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں
میں پہروں اپنے ہاتھوں کی لکیریں تکتی رہتی ہوں
مگر اپنی ہتھیلی پہ نہیں دِکھتی مُجھے ہرگز
وہ اک ساعت جو خزاں رُت کو بہاروں میں بدلتی ہو
وہ اِک لمحہ جو صدیوں کی تھکن کو مات دے جائے
وہ اِک رَستہ جو پَل بھر میں منزل کو پہنچ جائے
میری تکمیل کر جائے
میں پہروں تکتی رہتی ہوں، اُلجھتی اِن لکیروں کو
مگر اب تک نہیں مِلتی
وہ اِک ساعت کہ جس پہ وصل کا پیغام لِکھا ہو
وہ اِک ریکھا جس پہ تیرا میرا نام لِکھا ہو
سیدہ کلثوم
No comments:
Post a Comment