Saturday, April 1, 2017

بیٹیاں

ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں

اپنی خدمت سے اُتر جاتی ہیں دل میں سب کے
ہر نئی نسل کو تہذیب یہ سکھلاتی ہیں

ان سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں

لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بیٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں

بیٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں

اپنی سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں

بیٹیوں کی ہے زمانے میں انوکھی خوشبو
یہ وہ کلیاں ہیں جو صحرا کو بھی مہکاتی ہیں

ایک بیٹی ہو تو کھل اُٹھتا ہے گھر کا آنگن
گھر وہی ہوتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں

فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسول
محترم بیٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں

اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں

منظر بھوپالی

No comments:

Post a Comment