Saturday, April 1, 2017

اے مرے خوفزدہ بات تو سن!

اے مرے خوفزدہ بات تو سن!
تجھ کو کس بات سے ڈرتے ہوئے ڈر لگتا ہے؟
تیری کس رات میں ہر رات پڑی رہتی ہے؟
کون سے ذات تری ذات میں ڈھل سکتی ہے؟
کون سی بات تری بات بدل سکتی ہے؟
کیسا چہرہ ترے چہرے کے لیے موزوں ہے؟
کیسی آنکھیں تری آنکھوں میں سما سکتی ہیں؟
کیا ترے خواب میں یہ خواب نہیں آسکتا؟
کیا ترے بھاگ میں یہ بھاگ نہیں آ سکتا؟
میں تو ہر موڑ پہ ہر موڑ بدل لیتا ہوں
میں تو ہر شہر میں اک شہر بسا سکتا ہوں
میرے جذبات کے جذبات بدلتے ہیں نہیں
میرے حالات کے حالات بدل جاتے ہیں
تیری خوشبو مری خوشبو میں بسی رہتی ہے
میری باتوں میں تری بات چھپی رہتی ہے
اے مرے ہجر زدہ پاس تو آ۔۔۔
اے مرے خوفزدہ بات تو سن!

No comments:

Post a Comment