Saturday, April 1, 2017

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے بھری کائنات سے بھی گئے

جدا ھوئے تھے مگر دل کبھی نہ ٹوٹا تھا
خفا ھوئے تو تیرے التفات سے بھی گئے

چلے تو نیل کی گہرائیاں تھیں آنکھوں میں
پلٹ کر آئے تو موج فرات سے بھی گئے

خیال تھا کہ تجھے پا کے خود کو ڈھونڈیں گے
تو مل گیا ھے تو خود اپنی ذات سے بھی گئے

بچھڑ کے خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے
کبھی کبھی کی ادھوری بات سے بھی گئے

وہ شاخ شاخ لچکتے ھوئے بدن محسن
مجھے تو مل نہ سکے تیرے ھاتھ سے بھی گئے

No comments:

Post a Comment