سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے بھری کائنات سے بھی گئے
جدا ھوئے تھے مگر دل کبھی نہ ٹوٹا تھا
خفا ھوئے تو تیرے التفات سے بھی گئے
چلے تو نیل کی گہرائیاں تھیں آنکھوں میں
پلٹ کر آئے تو موج فرات سے بھی گئے
خیال تھا کہ تجھے پا کے خود کو ڈھونڈیں گے
تو مل گیا ھے تو خود اپنی ذات سے بھی گئے
بچھڑ کے خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے
کبھی کبھی کی ادھوری بات سے بھی گئے
وہ شاخ شاخ لچکتے ھوئے بدن محسن
مجھے تو مل نہ سکے تیرے ھاتھ سے بھی گئے
No comments:
Post a Comment