Saturday, April 1, 2017

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں تنہا ساون بِتا چکا ہوں
میں سارے ارمان جلا چکا ہوں
جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے
وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ہوں

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
بغیر اسکے اداس ہوں میں
بدلتی رت کا قیاس ہوں میں
بجھا دے اپنی محبتوں سے تو
سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
وہ جذبے میرے کچل گیا ہے
وفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے
نہ بدلے موسم بھی اتنی جلدی
وہ جتنی جلدی بدل گیا ہے

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں چاک دامن کو سی رہا ہوں
بہت ہی مشکل سے جی رہا ہوں
دیا جو نفرت کا زہر اسنے
سمجھ کے وہ امرت پی رہا ہوں

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
فصیل نفرت گرا رہا ہوں
گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے
میں اپنے وعدے نبھا رہا ہوں

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
یہ کس الجھن میں جی رہا ہوں
میں اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں
جو ہو سکے تو سمیٹ لے وہ مجھکو
میں تنکا تنکا بکھر رہا ہوں

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
نہ دل میں کوئی ملال رکھے
وہ ہمیشہ اپنا خیال رکھے
وہ اپنے سارے غم مجھکو دے دے
تمام خوشیاں وہ سنبھال رکھے
کہیں ملے تو.....
اسے یہ کہنا !!

No comments:

Post a Comment