Tuesday, April 11, 2017

ہمیں آواز نہ دے

کوئی گیسو کوئی آنچل ہمیں آواز نہ دے
اب کسی آنکھ کا کاجل ہمیں آواز نہ دے

ہم ہیں خاموش تو خاموش ہی رہنے دو ہمیں
کوئی آہٹ کوئی ہلچل ہمیں آواز نہ دے
ہم نے تنہائی کو محبوب بنا رکھا ہے

راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کو دبا رکھا ہے

پھر پکارا ہے محبت نے ہمیں کیا کیجے
دی صدا حسن کی جنت نے ہمیں کیا کیجے
جس کے ساے سے بھی اکثر ہمیں ڈر لگتا تھا
چھو لیا ہے اسی حسرت نے ہمیں کیا کیجے
اپنے جذبات سے دامن کو بچا رکھا ہے

راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کودبا رکھا ہے

راس آے نہ کبھی پیار کے حالات ہمیں
دل کے اس کھیل میں ہر بار ہوئی مات ہمیں
کیا کریں گے کہاں جائیں گے کدھر جائیں گے
دے گئی اب بھی دغا گر یہ ملاقات ہمیں
بس اسی سوچ نے دیوانہ بنا رکھا ہے

راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کو دبا رکھا ہے

موہندر دہلوی

No comments:

Post a Comment