کوئی گیسو کوئی آنچل ہمیں آواز نہ دے
اب کسی آنکھ کا کاجل ہمیں آواز نہ دے
ہم ہیں خاموش تو خاموش ہی رہنے دو ہمیں
کوئی آہٹ کوئی ہلچل ہمیں آواز نہ دے
ہم نے تنہائی کو محبوب بنا رکھا ہے
راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کو دبا رکھا ہے
پھر پکارا ہے محبت نے ہمیں کیا کیجے
دی صدا حسن کی جنت نے ہمیں کیا کیجے
جس کے ساے سے بھی اکثر ہمیں ڈر لگتا تھا
چھو لیا ہے اسی حسرت نے ہمیں کیا کیجے
اپنے جذبات سے دامن کو بچا رکھا ہے
راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کودبا رکھا ہے
راس آے نہ کبھی پیار کے حالات ہمیں
دل کے اس کھیل میں ہر بار ہوئی مات ہمیں
کیا کریں گے کہاں جائیں گے کدھر جائیں گے
دے گئی اب بھی دغا گر یہ ملاقات ہمیں
بس اسی سوچ نے دیوانہ بنا رکھا ہے
راکھ کے ڈھیر میں شعلوں کو دبا رکھا ہے
موہندر دہلوی
No comments:
Post a Comment