امید و خوف کے رستوں پہ چلتی جارہی ہوں میں
انھی رستوں پہ گِر گِر کر سنبھلتی جارہی ہوں میں
نئے موسم میں شاخوں اور درختوں کی طرح شاید
کوئی پوشاک سی جیسے بدلتی جارہی ہوں میں
افق سے ساعتِ یک تازہ تر آواز دیتی ہے
مگر اے عُمر تیرے ساتھ ڈھلتی جارہی ہوں میں
کبھی سورج ہے بالوں پر،کبھی شامیں ہیں چہرے پر
سفر کرتے ہوئے رنگت بدلتی جارہی ہوں میں
بہت سے خواب باقی رہ گئے ہیں رنگ بھرنے کو
ادھوری خواہشوں پر ہاتھ مَلتی جارہی ہوں میں
کسی روٹھے ہوئے دل سے تخاطب چاہتا ہے دل
کسی احساس کی لَو سے پگھلتی جارہی ہوں میں
بہت ہی دور اُتری ہے کہیں اک شام اک گھر میں
اور آنسو بن کے اُن آنکھوں سے ڈھلتی جارہی ہوں میں
شاہدہ حسن
Saturday, April 1, 2017
امید و خوف کے رستوں پہ چلتی جارہی ہوں میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment