Thursday, April 27, 2017

مجھے معلوم کر لینا

کسی بجھتی ہوئی تاریخ کے ان حاشیوں کے اندر
جہاں کچھ ان کہی باتیں
ہمارے مشترک احساس کی تسبیح شاید اب بھی پڑھتی ہوں
مجھے لوگوں کے قصّوں میں نہ ملنا
اس کہانی کی طرف جانا
کہ جو تم نے ابھی لکھّی نہیں ھَے
صرف سوچی ھے .. !!
کبھی باہر گلی سے
گھر سے
یا دنیا کے دروازوں سے آتے شور سے تم تنگ آ جاو
تو کانوں سے نہ لڑ پڑنا
مجھے سننا
مِری آواز تم کو خامشی کے معبدوں کی یاترا پر لے کے جائے گی .. !
اگر یہ زندگی اپنے سوالوں میں کوئی خالی جگہ لائے
تمھیں محسوس ہو اب وقت بالکل بھی نہیں ھے
سوچنا مت
اور مجھے تحریر کر لینا
میں ہر خالی جگہ میں کام آوں گا .. !
(مجھے یہ نظم لکھتے وقت جن مصرعوں سے بچنا پڑ رھا ھے
خود سمجھ لینا)
کبھی بیٹھے بٹھائے
بے خیالی میں تمھاری انگلیاں ازخود تمھارے ہونٹ چھو جائیں
تو شرمندہ نہ ہونا
مسکرا دینا
یقیں کرنا
وہ لمحہ مجھ سوا کوئی نہیں ہو گا
اسے منظوم کر لینا
مجھے معلوم کر لینا ۔۔۔۔ !!
______
نامعلوم

No comments:

Post a Comment