ابھی جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں
ابھی تو ہجر کے دشت و بیاباں پار کرنے ہیں ،،،،،
ابھی ان ریگزاروں میں
لہو بہنا ھے وعدوں کا ،،،،
ابھی راہوں کے سب کا نٹےمجھے پلکوں سے چننے ہیں
ان پر خار راہوں میں
مجھے تنہا نہیں چھوڑو
ان پر پیچ راہوں پہ مجھے چلنا نہیں آتا ،،
تمہیں معلوم ہے تم بن
سنبھلنا بھی نہیں آتا ۔
رسیور میں مقید ہیں
تمہارے رس بھرے لہجے ،،،
ابھی پاؤں سے لپٹے ہیں
وصال و قرب کے لمحے
ہمارے درمیاں رشتے ابھی نازک سے دھاگے ہیں
یہ کار ِ زیست کے ریشم
ابھی الجھے ھوئے ہیں سب
انہیں جھٹکے سے مت کھولو
یہ سارے ٹوٹ جائیں گے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ
تمہارے اجنبی لہجے سے اب محسوس ہوتا ہے
محبت روٹھ بیٹھی ہے
۔۔ جدائی آن پہنچی ہے ،،،،
تمہیں معلوم ہے نا کہ اندھیرو ں سے میں ڈرتی ہوں
پلٹنا گر ضروری ھے مجھے کچھ خواب ہی دے دو ،،،
ان ہی خوابوں کی مشعل سے
جدائی کے اندھیروں کی
مسافت طے کروں گی اب
تمہاری روح میں اٹکی
مری سانسوں کی یہ ڈوری
کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے
انہیں پورا تو ہونے دو ابھی تم دور مت جاؤ
سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ ابھی رستہ نہیں بدلو ،،،،
ابھی تو ٹھیک سے مجھکو سنبھلنا بھی نہیں آتا ،،،،
تمہیں معلوم ہے مجھکو بچھڑنا بھی نہیں آتا۔۔
Thursday, April 27, 2017
جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment