ھم یہیں آس پاس تھے لیکن۔
ھم تیرے التفات کو ترسے۔
عمر بھر گفتگو رھی لیکن۔
پیار کی ایک بات کو ترسے۔
دل پھول کی نازک پتی تھا۔
جو کنکر سے بھی ٹوٹ گیا۔
اب کیا رونا، اب کیا حاصل۔
جب ساتھ ھمارا چھوٹ گیا۔
لفظوں کے نوکیلے کنکر سے۔
اب اور کسے تم توڑو گے۔
یہ تن من کرچی کرچی ھے۔
اس کو اب کیسے جوڑو گے۔
خواھش تھی جو حسرت میں ڈھلی۔
تیرے آنگن کی، جنت کی۔
تیرے پیار کی ٹھنڈی چھاؤں کی۔
اس پیاسے دل کی منت کی۔
یہ ریشم کا اک تار نہ تھا۔
تھا کچا دھاگہ ٹوٹ گیا۔
جب دل ھی ریزہ ریزہ ھے۔
یہ تو پھر جاناں، ناتا تھا۔
جو تیرے ھاتھ کے کنکر تھے۔
وہ میری روح کے پتھر تھے۔
اک عمر تیرے سنگ کیا چلتے۔
دو چار قدم بھی دوبھر تھے۔
تھے تیری محبت کے قابل۔
یا کہ قدموں کی ٹھوکر تھے۔
اب ان باتوں سے کیا حاصل۔
ھم پتھر تھے یا گوھر تھے۔
دل پھول کی نازک پتی تھا۔
اور ھاتھ میں تیرے کنکر تھے۔
جو پتھر تھے، جو پتھر تھے...!!!!
Saturday, April 1, 2017
ھم تیرے التفات کو ترسے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment