Saturday, April 1, 2017

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا

کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا

پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا

کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل
پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا

کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

No comments:

Post a Comment