ﮔﺰﺭﺗﮯ ﻟﻤﺤﻮ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ
ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮬﯿﮟ
تو ﮐﻮﻥ، ﮐﺲ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﮬﮯ
ﺍﮔﺮ ﺻﺪﺍ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻞ ﮬﮯ
ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮬﮯ
ﺍﮔﺮﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮬﮯ ﺳﺎﺣﻞ
تو ﮐﻮﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﮬﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﮔﺮ ﯾﮩﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﻭﺭﺍ ﮬﮯ
ﮐﺴﮯ ﺧﺒﺮ ﮬﮯ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﺭُﺕ ﻧﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﮬﮯ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺑﺎﺩﻝ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﮯ
ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺎ ﮬﮯ
ﺟﻮ ﺁﺝ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﮯ ،ﮐﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﻤﺤﮧ، ﺍﭨﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﮔﺰﺭﺗﮯ ﻟﻤﺤﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ
ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ
Saturday, November 29, 2014
ﮔﺰﺭﺗﮯ ﻟﻤﺤﻮ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ
مجھے تجھ سے محبت ہے
اجازت دے اگر جاناں.
مجھے اک عرض کرنی ہے
مجھے وہ بات کہنی ہے
جسے تجھ سے چھپایا تھا
بہت بے چین ہو کر بھی
جو تجھ سے کہہ نہ پایا تھا
بہت رنجور ہوں میں اب،
کہ غم سے چور ہوں میں
اب زباں کچھ کہہ نہیں پاتی،
بہت مجبور ہوں میں اب کے
حالِ دل بھی اپنا میں تو اب کچھ کہہ نہیں سکتا
سکونِ جاں کہیں کھویا،
قرارِ جاں نہیں ملتا
تری یادوں میں کٹتی ہیں مری صبحیں ،
مری شامیں گذرتی ہیں ترے خوابوں میں اب تو
میری سب راتیں
ذرا اک پل مجھے بھی دے ،
مری یہ بات تو سن لے نہیں کچھ مانگتا تجھ سے،
سوائے تیری الفت کے مجھے اظہار کرنا ہے ،
یہی اقرار کرنا ہے مجھے تجھ سے محبت ہے ،
مجھے تجھ سے محبت ہے
دسمبر آ گیا جاناں
دسمبر آ گیا جاناں
کہ پھر اک سال
تیری یاد کے سمندر میں
اتر کر جانے والا ہے
یہ دل پھر رونے والا ہے
تمھیں کچھ یاد ہے جاناں
اسی پچھلے دسمبر میں
تمہی نے مجھ کو لکھا تھا
کہ نیا جو سال آے گا
اس میں مل کے رہنا ہے
بہت سے پیار کے وعدے
بہت سی ان کہی باتیں
ہمیں تحریر کرنی ہیں
محبت کی نئی نظمیں
ہمیں اس بار لکھنی ہیں
مگر جاناں
وہی راتیں ، وہی شامیں
وہی خوشبو ، وہی نظمیں
مجھے ہر وقت کہتی ہیں
دسمبر لوٹ آیا ہے
مگر
ترا ساتھی نہیں آیا
دسمبر آ گیا جاناں
بے خلوص لوگوں سے اجتناب کرنا ہے
بے خلوص لوگوں سے
اجتناب کرنا ہے
مجھ کو اپنے رشتوں کا
احتساب کرنا ہے
تم کو بھول جانا ہے
تم کو یاد رکھنا ہے
دکھ تو ایک جیسا ہے
انتخاب کرنا ہے
خوشیوں میں حصہ ڈالنا
اسلام علیکم
صبح بخیر
کسی کی خوشیوں میں حصہ ڈالنا،کسی کے لیے اچھا کرنا اتنا بھی مشکل نہیں،اگر آپ کسی ضرورت مند،پریشان حال کی مالی مددنہیں کر سکتے مگر اخلاقی طور پے تو ساتھ دے ہی سکتے ہیں
کسی کو نیک مشورہ دے کر
کسی کے دکھ درد بانٹ کر
کسی کے حق میں دعا کر کے
Friday, November 28, 2014
ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮐﺮﻭ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻧﺎﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮐﺮﻭ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺗﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﻭ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﮬﻮ
ﺁﺝ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﻮ
.ﺁﺝ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﻮ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﻟﺌﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﺍﭘﻨﮯ ﺗﮑﯿﮯ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮪ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺩﻝ ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ
ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮮ ﺗﻮ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺳﮯ
"ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﺳﯿﮑﮭﻮ ﺍﺏ
ﻟﻮﮒ ﭼﮩﺮﮦ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
سمجھوتے
الســلام عـلیکُــم ۔۔۔۔۔۔۔۔ صُبح بخـیر زِندگِـی
کچھ لوگوں کے خیال میں وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنکی دلی تمنائیں پوری ہوتی ہیں ورنہ سمجھوتے مار ڈالتے ہیں.
حالانکہ سچ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو کسی نا کسی جگہ ... زندگی کے ہر موڑ پر سمجهوتہ کرنا ہی پڑتا ہے...
اور جو سمجهوتہ نہیں کرتے وہ خود غرضی کی بیماری میں ہوتے ہیں کہ صرف اپنا آپ دیکهتے ہیں!
خوش نصیبی یہ نہیں کہ انسان کو وہ سب ملے جس کی وہ تمنا کرے!
خوش نصیبی یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ کا شکر گزار رہے اور اس کا دل مطمئن ہو !
خواہشات
زندگی کو ضرورتوں تک ہی رکهنے میں بهلائی ہے خواہشات کی طرف زندگی کا چلے جانے آفت کے سوا کچه نہیں .......
جب تک انسان پانی کے دو گھونٹ کی ضرورت سے اپنی پیاس بجهاتا ہے کامیاب رہتا ہے لیکن جب پیاس خواشات کا رخ اختیار کر لیں تو انسان سمندر کا پیاسا ہو جاتا ہے .... اور اپنی خواشات کی پیاس یعنی سمندر میں آخرکار غرق ہو جاتا ہے ...
خدارا انسانوں کو بھی اپنے قریب کریں
زندگی یوں تو گزر ہی جاتی ہے لیکن اگر ہماری زندگی باہم انسانوں کے درمیان اور ان کی محبت میں گزرے تو وہ زندگی بڑی خوبصورت ہوگی اور یقینا ہوگی-انسان اللہ کو خوش کرنے کے لیے عبادات کرتا ہے،راتوں کو اٹھ اٹھ کر خداوند تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے تاکہ اس کو خالق کی خوشنودی حاصل ہوجائے- اگر ہم اللہ کی خوشی کے لیے انسانوں کو محبت کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیں اور سوچ لیں کہ ہم نے کبھی کسی انسان کو حقیر نہیں سمجھنا، تو آپ یقین کریں کہ یہ سوچ ہی آپ کے دل کو اتنا سکون فراہم کرے گی کہ آپ محسوس کریں گے جیسے خدا آپ کو مسکراہٹ سے دیکھ رہا ہے- آپ عبادات ضرور کریں، شوق سے کریں لیکن خدارا انسانوں کو بھی اپنے قریب کرلیں- یہ بھی عظیم عبادت ہے۔،
اب مجهے آزاد کر دو
اب مجهے آزاد کر دو
جو تیرے جی میں آئے
اب جو تیرا من کہے
چاہو تو مجھے
فنا کی آخری حد تک
برباد کر دو
ارمانوں کی دستاد
بهرے بازار
میرے سر سے اتار لو
اس شہر پارسا میں
دربدر کر دو
خوشی کا ہر کهلونا
میرے ہاتھ سے لے کر توڑ دو
واپسی کے ہر راستے میں
شام کر دو
لیکن میرا اک کام کر دو
اب مجھ سے اپنی محبت واپس لو
اپنی زندگی سے نکال دو
مجهے میری
تنہائیوں میں آباد کر دو
اے میرے ساحر
سنو
اب مجهے آزاد کر دو
ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻕ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺎﻥِ ﺟﺎﮞ ﺗﺮﮮ ﮐﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﮮ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻀﻤﺤﻞ ﮐﺒﮭﯽ
ﭘُﺮﺳﮑﻮﮞ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺮﮨﻤﯽ ﮨﮯ
ﻣﺰﺍﺝ ﻣﯿﮟ
ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻕ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺎﻥِ
ﺟﺎﮞ ﺗﺮﮮ ﮐﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﮮ
ﺁﺝ ﻣﯿﮟ
ﻧﺌﯽ ﺑﻨﺪﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﺍﺋﺮﮮ ﻣﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﻭ ﺟﺎﮞ
ﮐﯽ ﻓﺼﯿﻞ ﭘﺮ
ﻧﮩﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺍﺭ ﮐﯽ،
ﻣﯿﮟ ﮔِﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺳﻤﺎﺝ
ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﻋﻼﻣﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺷﮑﺴﺖ
ﮐﯽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﻮ ﮨﺮ
ﮔﮭﮍﯼ
ﮐﺒﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮔﻠﮧ
ﺭﮨﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻘﺺ ﺭﺳﻢ ﻭ
ﺭﻭﺍﺝ ﻣﯿﮟ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ "
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ
ﯾﺎ ---------- ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻦ ﻟﯿﻨﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺍﻭﺭ ----------- ﺑﻨﮕﻠﮧ، ﮐﺎﺭ، ﺍﭼﮭّﯽ ﺟﺎﺏ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ----------- ﺗﻮ
" ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ "
ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺮﺳﻮﺩﮦ ﺳﺎ ﺟﻤﻠﮧ
ﺑﮩﺖ ﻓﺮﺳﻮﺩﮦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺾ ﺍِﮎ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒّﺖ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ------- ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﺮﻧﮯ ------- ﺧﯿﺎﻝ
ﺭﮐﮭﻨﮯ ------- ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ
( ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﮨﻮ
" ﻣﺤﺒّﺖ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ "
ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﯾﮧ ﺩﯾﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﭘﺮﻭﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ )
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣَﯿﮟ ﺩﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﻭﺭ ------------- ﻣﯿﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ؟
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑَﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺳَﻤﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﮐﮧ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻣَﺪﺩ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍِﻧﮑﺎﺭ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﭨﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮ !
ﺗﻮ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮ
ﺗﻮ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻢ
ﺑﮭﻼ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﺠﮭﮯ ------- ﻟﯿﮑﻦ
ﺑَﺲ ﺍِﺗﻨﺎ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺗﻢ
" ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ "
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ
ﯾﺎ ---------- ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻦ ﻟﯿﻨﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ------ ﭼﺎﮨﯿﮯ ------- ﺟﺎﻧﺎﮞ
تم کو شہرت ہو مبارک ہمیں رسوا نہ کرو
تم کو شہرت ہو مبارک ہمیں رسوا نہ کرو،
خود بھی بک جاؤ گے اک روز یہ سودا نہ کرو،
شوق سے پردہ کرو پردہ ہے واجب لیکن،
میری قسمت کے اندھیروں میں اضافہ نہ کرو،
چوم لینے دو رخ یار کو جی بھر کے ہمیں،
زندگی پیار ہے تم پیار سے روکا نہ کرو،
کوششیں کرنے سے حالات بدل جاتے ہیں،
خود بگاڑی ہوئی تقدیر کا شکوہ نہ کرو،
بندگی ہی سے تو ہے بندہ نوازی ان کی،
بعض نادان یہ کہتے ہیں کہ سجدہ نہ کرو،
عرش پر خاک نشینوں کا بسیرا توبہ،
جو نہ پوری ہو کبھی ایسی تمنا نہ کرو،
حسن کو تو نے خدا سمجھا ہے لیکن اے منیر،
خود بنائے ہوئے معبود کی پوجا نہ کرو،
ﺯِﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺯِﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﺼﻒ ﮐﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ
ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﻒ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺍﺳﻠﯿﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﻼ ﻭﺟﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﯿﺠﯿﮱ ,
ﺧُﻮﺩ ﺑﮭﯽ
ﺧُﻮﺵ ﺭﮨﯿﮱ ﺍﻭﺭ ﺩُﻭﺳﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧُﻮﺷﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﯿﮟ ـ
ﺳﭽّﯽ ﺧُﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳُﮑﻮﻥ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
سردیوں کے موسم میں
سردیوں کے موسم میں
یاد کی زمینوں پراتنی دھول اڑتی ہے
آنکھ کے کناروں پرسارے خوشنما منظر
دھندلا سے جاتے ہیں
کچھ نظر نہیں آتا
آس کے دریچوں سے نامرادیوں کی بیل
اس طرح لپٹتی ہے
جیسے صبح کا بھولا رات ڈوبنے تک بھی
اپنے گھر نہیں آتا
سردیوں کے موسم میں
دور کی مسافت پر جانے والا کوئی بھی
لوٹ کر نہیں آتا
خوب گنگنا بھی لو
کھل کے مسکرا بھی لو.
چین پھر نہیں آتا...
سردیوں کے موسم میں
بے سبب ان آنکھوں میں
کچھ نمی سی رہتی ہے
زندگی مکمل ہو
پھر بھی ذات میں جیسے
کچھ کمی سی رہتی ہے
سردیوں کے موسم میں
ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ
ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻨﮧ ﺩﮬﻠﻮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ،
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﻧﮩﻼﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﯿﻞ ﮐﭽﯿﻞ
ﺩﻭﺭ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺑﭽﮧ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺭﻭﺗﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﭼﯿﺨﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺳﮑﻮ
ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ....
ﺍﺏ ﺑﭽﮧ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ
ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﮞ
ﺷﻔﻘﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﻧﮩﻼﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﯿﻞ ﮐﭽﯿﻞ ﺩﻭﺭ
ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺭﮨﯽ
ﮨﮯ...
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﺑﭽﮧ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﮔﺎ ، ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ
ﯾﮧ ﻧﮩﻼﻧﮯ ﺩﮬﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﺮﯼ
ﻣﺎﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻭﮦ ﺑﮍﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ
ﺷﻔﻘﺖ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺗﮭﺎ، ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ
ﻇﻠﻢ ﻭﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﯿﻞ ﮐﭽﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﻧﮧ
ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮔﻨﺪﮦ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ..
ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﺰﻭﺟﻞ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺳﺨﺘﯽ ﺍﻭﺭ
ﺁﺯﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ
ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﭘﺎﮎ ﻭﺻﺎﻑ
ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﯽ
ﻧﮧ ﮨﻮ،
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ
ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻭﻗﺖ ﺗﻮﺑﮧ ﻭﺍﺳﺘﻐﻔﺎﺭ
ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔
ﺁﻣﯿﻦ
پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے
وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے
آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ
میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے
میں تجھے دُوں تری پانی کی لکھی تحریریں
تو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے
میں شب و روز کا حاصل اُسے لوٹا دوں گا
وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس کر دے
مجھ سے لے لے صدف و گوہر و مرجاں کا حساب
اور وہ غرقاب سفینے مجھے واپس کر دے
نسخۂ مرہمِ اکسیر بتانے والے
تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے
ہاتھ پر خاکۂ تقدیر بنانے والے
یوں تہی دست نہ در سے مجھے واپس کر دے
آسماں ! صبح کے آثار سے پہلے پہلے
میری قسمت کے ستارے مجھے واپس کر دے
میں تری عمرِ گزشتہ کی صدا ہوں خورشید
اپنے ناکام ارادے مجھے واپس کر دے
کاش بندہ شکر گزاری سیکھ لے
اس نے کہا...
"حَيَّ عَلَي الصَّلوٰةِِ"
میں نے کہا...
"میں نہیں آتا..."
اس نے کہا...
"حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ"
میں نے کہا...
"مجھے نیند آرہی ہے"
اس نے کہا...
"الصلوۃ خیر من النوم"
میں نے سر پر تکیہ دبایا اور منہ پھیر کر سو گیا...
صبح ١١ بجے آنکھ کھلی...
فجر کی بات یاد آئی ...
میں نے سوچا کوئی رد_عمل نہ ہوا ہو اللہ کی جانب سے...
مگر ناشتے کی میز پر وہی انواع و اقسام کی نعمتیں سجی تھیں...
میں نے دیوار پر لگے "اللہ" کے تغرے کی طرف دیکھا...
"مالک ہو تو ایسا"
۔
کاش بندہ شکر گزاری سیکھ لے
کھیل سے کھلاڑی کا عمر بھر کا رشتہ ہے
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کا یہ رشتہ
چھوٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے
ﺍﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺁﺱ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺁﺱ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍُﺱ ﺁﺱ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ
ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﮏ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
میرے لیے کون سوچتا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں کے پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں
میرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کے دل میں کدورتیں ہیں
کبھی یوں بھی ھو تیرے ساتھ میں
کبھی یوں بھی ھو
تیرے ساتھ میں
ھرے پانیوں میں سفر کروں
ھو ھوا بھی اور مزاج کی
چلے بادبان سے روٹھ کر
کہیں دور لے چلے کشتیاں
کہیں دور کھیل ہی کھیل میں
ھوا ساحلوں کے فریب میں
کہیں سانس لے تو قیام ھو
ھوا سانس لے تو قیام ھو
کسی آبشار کی اوٹ میں
جہاں چاند بھی لگے موم سا
جہاں آہٹیں بھی کوئ نا ھوں
وہاں ایک شب یوں بسر کریں
کہ پلوں میں صدیاں گزار دیں
نہ شمار صدیوں میں سال کا
نا ھوں سال ماہ سے آشنا
ھمیں واپسی کا خیال ھو
ھمیں واپسی کا خیال ھو
تو ھو کاش یوں تو ھو کاش یوں
سبھی بادباں ھوں پھٹے ھوے
کسی راستے کا نشاں نا ھو
کبھی یوں بھی ھو
کچھ خواب ہی سارے ٹوٹ گئے
کچھ خود بھی تھے افسردہ سے
کچھ تم بھی ہم سے روٹھ گئے
کچھ خود ہی زخم کے عادی تھے
کچھ شیشے ہاتھ سے چھلکی
کچھ خود بھی تھے حساس بہت
کچھ اپنے مقدر روٹھ گئے
کچھ تم کو سچ سے نفرت تھی
کچھ ہم سے نہ بولے جھوٹ گئے
کچھ لوگوں نے اکسایا تم کو
کچھ اپنے مقدر پھوٹ گۓ
کچھ خود اتنے محتاط نہ تھے
کچھ لوگ بھی ہم کو لوٹ گۓ
کچھ تلخ حقائق تھے اتنے
کچھ خواب ہی سارے ٹوٹ گئے
ﯾﮧ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻣﺖ ﭘﻮﭼﮫ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺮﮮ
ﮐﯿﻮﮞ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﯽ ﺍﮎ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﯽ
ﮔﮭﻨﮕﮭﻮﺭ ﮔﮭﭩﺎﺋﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻟﻤﺤﮯ
ﮈﮬﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﻮﺭﺝ ﺗﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻋﮑﺲ ﻟﺌﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻨﺪ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﺖ ﭘﻮﭼﮫ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺯﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﻻﮐﮫ ﭼﮭﭙﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﮎ ﻗﺮﺽ ﭼﮑﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﮯ
ﺑﺲ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﺮﮮ
ﯾﮧ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﺍُﻥ ﺟﮭﯿﻞ ﺳﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﺍُﻥ ﺟﮭﯿﻞ ﺳﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ
ﺷﺎﻡ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﺍُﺱ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﻞ ﺩﻭ پل
ﺍﮎ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﻧﯿﻼ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﮯ
ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﮟ ﻟﮩﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﺭﻭﺯ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻢ کج جﮈﮬﻠﮯ
ﺍُﺱ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﮯ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻟﺮﺯﺗﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﭼﻠﮯ
ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ
ﺑﺴﺮﮮ ﭘﻞ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﺍُﻥ ﺟﮭﯿﻞ ﺳﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ
ﺷﺎﻡ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﻋُﻤﺮ ﺳﻤﻨﺪﺭ کی
ﮨﺮ ﻣﻮﺝ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ
ﮨﺮ ﺩﺭﺩ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍُﺱ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﻨﺎﺭﮮجف ﭘﻞ ﺩﻭ ﭘﻞ ﻭﮦ ﺭُﻭﭖ
ﻧﮕﺮ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻋﮑﺲ
ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺯﺍﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﺍُﻥ ﺟﮭﯿﻞ ﺳﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ
ﺷﺎﻡ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﻮ ﮨﻮ
محبت مختصر بھی ہو تو
آکاس بیل
محبت مختصر بھی ہو تو
اُس کو بھولنے میں عُمر لگتی ہے
وہ چہرہ بھول جاتا ہے
مگر اُس سے جُڑی دل کی سبھی یادیں
آکاس بیل کی مانند
روح کے شجر سے شاخ درشاخ
لپٹی ہی رہتی ہیں
انھیں خود سے جُدا کرنے میں
اک عمر لگتی ہے
فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں
کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے
کار ہائے دنیا سے جو ملے ہم کو
وہ چاک تمھاری رفاقتوں سے نہ سلے ہوتے
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
تو آج اس حسیں موڑ پر اجنبی جیسے
مل بیٹھتے اور اک نیا آغاز کرتے
تم اپنی مسکراہٹ سے چھیڑتی راگنی
ہم دل کو مدعا، دھڑکنوں کو آواز کرتے
فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
تم اپنی دنیا میں گم سم
الگ سے خواب بنا کرتی
ہم اپنے خیالوں میں گنگناتے
کوئی دور ہمیں سنا کرتی
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
دریدہ دل کے دامن میں اب جو ہیں
کبھی وہ پھول نہ کھلے ہوتے
تو اب جو ملال گزرے دنوں کا ہے
وہ کسی اور شخص سے منسوب ہوتا
ہم تم اجنبی ہی رہتے جو عمر بھر
تو سوچو کتنا خوب ہوتا
نہ چاہتیں ہوتیں، نہ رنجشیں بنتیں
آرزوئیں جو دل میں دبی رہتیں
ایسے نہ آنکھوں کی بارشیں بنتیں
نہ تمھیں کچھ ہماری خبرہوتی
نہ ہمیں کوئی تمھاری فکر ہوتی
نہ جھگڑے وفا جفا کے ہوتے
نہ ہی کوئی ہجر و وصال کے سلسلے ہوتے
!فرض کرو ہم کبھی نہ ملے ہوتے
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﻮ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ، ﺣﻮﺍﻟﮯ ﻣﻞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﺗﮯ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘُﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐِﮭﻠﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮨﻴﮟ ﭘﺮ ﮐِﮭﻞ ﮔﺌﮯ
ﮨﻮﺗﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺍﻳﻤﺎﻥ ﮐﻲ ﺗﮑﻤﻴﻞ ﺑﮭﻲ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﻲ
ﻓﺮﺍﺭﻳﺖ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﺳﻤﺖ ﺭَﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﮭﭩﮑﺎﺗﻲ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻣﻠﻮﺍﺗﻲ
ﮨﺰﺍﺭ ﺻﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﻳﻮﮞ ﮐﺒﮭﻲ ﺗﺠﺴﻴﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﻮ
ﻣﻴﮟ ﻳﻮﮞ ﺗﻘﺴﻴﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣِﺮﮮ ﺩُﺷﻤﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻣِﺮﮮ ﺩُﺷﻤﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﺴﯽ ﮔﮩﺮﯼ ﭼﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮨﯽ ﻓﻀﻮﻝ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺷﮑﺴﺖ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺣﻮﺻﻠﮯ ﺟﻮ ﻣﺜﺎﻝ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺣﺮﻑ ﺣﺮﻑ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ
ﺟﻮ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﺑﺎﻝ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﻣِﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ،ﮐﺒﮭﯽ ﺟﮕﻨﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺳﺠﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ
ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺩُﺷﻤﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺷﺎﻡ ﺷﮩﺮ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﻟﺐ ﭘﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﺟﻮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺩُﺷﻤﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﻋِﮩﺪ ﻧﺸﺎﻁ ﻣﯿﮟ
ﻣُﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﭘﮧ ﺍِﺗﻨﺎ ﻏﺮﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﮔﯿﺎ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﻓﺎﺗﺤﺎﻧﮧ ﺧُﻤﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﻣِﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮩﺎﻝ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺩﺷﺖ ﻟﺸﮑﺮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ
ﻣِﺮﮮ ﺳُﺮﺧﺮﺩﻣﮧ ﻭصاﻝ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ
ﮐﮧ ﺑﺲ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﮞ ﭘﺮ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﻗﺼّﺌﮧ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ–— ﺟﻮ
ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮔﺌﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻼﻝ ﮨﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺩُﺷﻤﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﮐﻮﺋﯽ.
ﻟﺐِ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺗﻤﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﻟﺐِ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺗﻤﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﺎ ﻟﮩﺠﮧ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﭼﻠﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﺁﮨﭧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ
ﺍﭘﻨﯽﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﯾﻮﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻃﻦ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻓﺎﺵ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺟﺴﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﭼﺎﺩﺭِ ﺍﻓﻼﮎ ﮨﻤﯿﮟ
ﺳﺮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﺳﻌﺖِ ﺻﺤﺮﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﺳﯿﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ
ﺭﯾﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﺋﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺑﮭﯿﻨﭧ ﭼﮍﮪ ﺟﺎﺅﮞ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺧﯿﺮ ﻭ ﺷﺮ ﮐﯽ
ﺧﻮﻥِ ﺩﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﯾﮟ، ﺯﺧﻢِ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺍِﮎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺲِ ﺑﺮﺩۂ ﺩﻧﯿﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺁﺝ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭼﻠﻮ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﭩﺎ
ﺍﺏ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺳﮯ ﺧﯿﺮﯾﺖِ ﻓﺮﺩﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﺗﯿﺮﺍﮎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻈﻔـﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﻏﺮﻕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ
خواہش رہی اپنی
خواہش رہی اپنی
اک بار کبھی پوچھو
کیا مجھ سے محبت ہے
کیا مجھ سے محبت ہے
تب دھیرے سے میں بولوں
لا حاصل باتیں ہیں
ہاں ۔.کہہ کے میں کیوں جاناں
دھند لا دوں نگاہوں کو
دوبھر ہو سنبھلنا پھر
قابو میں نہ دل آئے اور دھڑکن تھم جائے
انکار کی صورت میں
امکان ہے جی پاؤں
تھوڑی سی تسلی ہو
پہلے کی طرح اب بھی
خواہش ہی رہی اپنی
اک بار کبھی پوچھو
خواہش ہی رہی اپنی
یہ اکیلے پن کی اداسیاں
یہ اکیلے پن کی اداسیاں، یہ فراق لمحے عذاب سے
کبھی دشتِ دل پہ آ رکیں تیری چاہتوں کے سحاب سے
میں ہوں تجھ کو جاں سے عزیز تر، میں یہ کیسے مان لوں اجنبی
تیری بات لگتی ہے وہم سی، تیرے لفظ لگتے ہیں خواب سے
یہ جو میرا رنگ و روپ ہے یونہی بے سبب نہیں دوستو!
میرے خوشبوؤں سے ہیں سلسلے میری نسبتیں ہیں گلاب سے
اسے جیتنا ہے تو ہمنشیں! یونہی گفتگو سے نہ کام لے
کوئی چاند لا کے جبیں پہ رکھ، لا کوئی گہر تہہِ آب سے
وہی معتبر ہے میرے لیے، وہ جو حاصلِ دل و جان ہے
وہ جو باب تم نے چرا لیا میری زندگی کی کتاب سے.
تیرے ملنے کا اک لمحہ بس اک لمحہ سہی لیکن
تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی لیکن
بکھر جائے تو موسم ہے
وفا کا بےکراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم آنکھ میں اترے
تو رنگوں سے دہکتی روشنی کا
عکس کہلائے
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
تیرے ملنے کا اک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں
دھنک بھرنے کا موسم ہے
یہ موسم
خوبصورت شاعری کرنے کا موسم ہے
جب سورج ڈوبے سانجھ بہئے اور پھیل رہا اندھیارا ہو
جب سورج ڈوبے سانجھ بہئے
اور پھیل رہا اندھیارا ہو
کسی ساز کی لے پر چھنن چھنن
کسی گیت کا مکھڑا جاگا ہو
اس تال پہ ناچتے پیڑوں میں
اک چپ چپ بہتی ندیا ہو،،
ہوچاروں اوٹ سوگھند بسی
یوں جنگل پہنا گجرا ہو
یہ عنبر کے مکھ کا آنچل
اس آنچل کا رنگ اودا ہو
ایک گوٹ دو پیلے تاروں کی
اور بیچ سنہرا چندا ہو
اس سندر شیتل شام سمے
ہاں بولو بولو پھر کیا ہو؟
وہ جس کا ملنا ناممکن
وہ مل جائے تو کیسا ہو
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
کہو کس کو بتاؤ گے
وہ اپنی الجھنیں ساری
وہ بےچینی میں ڈوبے پل
وہ آنکھوں میں چھپے آنسو
کسی پھر تم دکھاؤ گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
بہت بےچین ہو گے تم
بہت تنہا رہ جاؤ گے
ابھی بھی تم نہیں سمجھے
ہماری ان کہی باتیں
مگر جب یاد آئیں گے
بہت تم کو رلائیں گے
بہت چاہو گے پھر بھی تم
ہمیں نا ڈھونڈ پاؤ گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
میرے ہمسفر، میرے سائباں
میرے ہمسفر، میرے سائباں
میری زندگی، میرا کل جہاں
ہیں، ره حیات کے سلسلے
کبھی قربتیں، کبھی فا صلے
رہیں تیرے ساتھ رواں دواں
میرے کارواں میرے قافلے
تو ہی روبرو، ہے تو ہی نہاں
میرے ہمسفر، میرے سائباں
تیرے التفات کی خواهشیں
تیری آرزو ، تیری چاہتیں
شب و روز تیری ہی جستجو
تجھے ڈهونڈتا پهروں کوبکو
تو میرا یقیں، تو کبھی گماں
میرے ہمسفر ،میرے سائباں
میرے ہمسفر، میرے سائباں