Friday, February 27, 2015

مِرے لمحوں كے ساتھی !

مِرے لمحوں كے ساتھی !
ہوا کا شور سُن کر تُم
اچانک یوں پرندوں کی طرح
کیوں جاگ اُٹھتے ہو
کسی ہلکی سی آہٹ پر
اچانک چونک پڑتے ہو
بہت بےچین اور بےتاب ہو کر
اپنے کمرے کی
ہر اک دیوار تکتے ہو
نگاہوں میں وہی شدت لیے اب بھی
اُسی كے منتظر ہو تم
اُسی کی راہ تکتے ہو
تمہیں شاید گُماں ہو گا ،
کہ وہ برسوں پُرانے اس تعلق کو
ابھی بھُولا کہاں ہو گا ،
مِرے لمحوں كے ساتھی
وقت کی دہلیز پر بکھرے ہوئے
خوابوں سے مت الجھو
بہت سے خواب ایسے ہیں
جو آنکھیں چھین لیتے ہیں
مگر پورے نہیں ہوتے
تمہیں معلوم ہی کب ہے ،
کہ رشتے ٹوٹ کر ریزوں میں بٹ جائیں
تو پِھر سِمٹا نہیں کرتے
سُنو پچھلے کئی برسوں سے
اِس رستے پہ کوئی بھی نہیں آیا
تو وہ جو اپنی مرضی سے
کسی ان دیکھے رستے پر چلا جائے
بھلا وہ لوٹ آۓ گا؟
میری مانو
یہاں کوئی نہیں آتا
یہاں کوئی نہ آئے گا

انوکھی یاری

انوکھی یاری

ساڈی یاری نبهنی اوکهی
او اتهری تے میں منہ زور
میں اپنی مرضی دا مالک
اونے ٹرنی اپنی ٹور
دو گهڑیاں وی ٹک کے کدهرے
کٹهیاں بہہ نہیں سکدے
ایہہ گل وکهری اے
وکهریاں ہو کے ایک دوجے توں
زندہ ره نہیں سکدے

محّبت کم نہیں ہو گی

محّبت کم نہیں ہو گی
مِری آنکھیں سلامت ہیں
مِرا دل میرے سینے میں دھڑکتا ہے
مُجھے محسوس ہوتا ہے
محّبت کم نہیں ہو گی
محّبت ایک وعدہ ہے
جو سچاّئی کی اُن دیکھی کسِی ساعت میں ہوتا ہے
کِسی راحت میں ہوتا ہے
یہ وعدہ شاعری بن کر مرے جذبوں میں دُھلتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
محّبت کم نہیں ہو گی
محّبت ایک موسم ہے
کہ جس میں خواب اُگتے ہیں تو خوابوں کی ہری
شاخیں
گُلابوں کو بُلاتی ہیں
انھیں خُوشبو بناتی ہیں
یہ خُوشبو جب ہماری کھڑکیوں پر دستکیں دے کر
گُزرتی ہے
مُجھے محسوس ہوتا ہے
محّبت کم نہیں ہو گی

Thursday, February 26, 2015

جدائی کی سبھی باتیں‌

کہا تھا نا 
میری خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں‌دینا
جدائی کی سبھی باتیں‌
میری آنکھوں میں پڑھ لینا
میری اس مسکراہٹ میں اگر محسوس کر پاؤ
تو میرے آنسوؤں‌کی تم نمی محسوس کر لینا
کہیں جو رہ گئی ہے وہ کمی محسوس کر لینا
میری سوچیں میرےالفاظ کا جب روپ لیتی ہیں،
تمہارا عکس بنتا ہے!
میری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں،
تمہارا ذکر چلتا ہے!
تمہاری یاد ماضی کے دریچے کھول دیتی ہے
تمہاری شبنمی آہٹ یہ مجھ سے بول دیتی ہے
کہا تھا نا . . . !
ہمارےدرمیاں یہ فاصلے قسمت میں‌لکھے ہیں
اور اس قسمت کے لکھےکو
بدل تم بھی نہیں سکتیں، بدل میں بھی نہیں سکتا!
مگرمشکل یہ ہے کہ ہجر کے پُریچ رستوں پر
سنبھل تم بھی نہیں سکتیں، سنبھل میں‌بھی نہیں سکتا!
تو بہتر ہے کہ ہم اک دوسرے کی یاد کے ہمراہ ہو جائیں
کہ اب کہ اس محبت سے
نکل تم بھی نہیں سکتیں‌، نکل میں‌بھی نہیں سکتا!
سنو جاناں!
تمہاری شبنمی آہٹ میرے اندر دھڑکتی ہے
مگر جب خامشی سے تم کوئی معانی نہیں لیتیں
تو یہ دل روٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔
میرے اندر کہیں پر کچھ اچانک ٹوٹ جاتا ہے ۔

کبھی یاد آؤ تو اس طرح


کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟

کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
جِدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے
کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
کبھی چھُو کر اسے دیکھا
تو تُم نے کیا بھلا پایا
کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چھُو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے
کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
تمہیں جب چھُو لیا اُس نے
تو کیا احساس جاگا تھا ؟
کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے
کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
فلک سے جو اُتر آیا !
تمھاری آنکھ میں بسنے
کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اِک شب سُلا آئے
کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
بِنا پرکھے کیا تُم نے
کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بھُلا آئے
کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
جِسے صحراؤں اور چنچل ،
ہواؤں پر لکھا تُم نے
کہا ، بس موسموں جیسا ، نا جانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے

Wednesday, February 25, 2015

ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ,
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉ.
ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﻮ ﺍﺛﺎﺛﮧﺀﺣﯿﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ
ﻟﯿﮟ ﮔﯽ
ﮨﯿﮟ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺑﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﮐﻮ ﺍﺧﺬ ﮐﺮﻧﮯ
ﻣﯿﮟ
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﻨﺎ
ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮﮮ ﺳﮯ ﻗﻮﺱ ﻗﺰﺡ ﺑﻨﺎ
ﻟﯿﻨﺎ
ﺫﺭﺍ ﺟﮭﻨﺠﮭﻼﯾﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﭘﺮ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮑﮭﺮ
ﺟﺎﻧﺎ
ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﯿﮯ ﺑﮭﮕﻮ ﺩﯾﻨﺎ
ﭨﻮﭨﺘﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺠﺎ
ﺩﯾﻨﺎ
ﭘﮭﺮ ____
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﭘﺮ ﺳﺐ ﺗﻠﺨﯿﺎﮞ ﺑﮭﻼ
ﺩﯾﻨﺎ
ﺍﻣﯿﺪ ﻧﺌﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﮕﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﻨﺎ
ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﮟ ﮔﯽ
ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎﯾﮟ ﮔﯽ
ﺭﻭﺭﻭ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﮔﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺩﯾﮟ ﮔﯽ
ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻟﻤﺤﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﺍﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ
ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺳﺘﻢ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﺟﮭﯿﻞ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ
ﺁﻧﺴﻮ ﺳﺐ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ
ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺍﮎ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ
ﺷﺮﯾﮏ ﺭﻭﺡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ
ﭘﮭﺮ ﻣﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ
ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮨﺸﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺳﭻ ﮐﮩﺎ
ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

جدائی کی سبھی باتیں‌

کہا تھا نا 
میری خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں‌دینا
جدائی کی سبھی باتیں‌
میری آنکھوں میں پڑھ لینا
میری اس مسکراہٹ میں اگر محسوس کر پاؤ
تو میرے آنسوؤں‌کی تم نمی محسوس کر لینا
کہیں جو رہ گئی ہے وہ کمی محسوس کر لینا
میری سوچیں میرےالفاظ کا جب روپ لیتی ہیں،
تمہارا عکس بنتا ہے!
میری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں،
تمہارا ذکر چلتا ہے!
تمہاری یاد ماضی کے دریچے کھول دیتی ہے
تمہاری شبنمی آہٹ یہ مجھ سے بول دیتی ہے
کہا تھا نا . . . !
ہمارےدرمیاں یہ فاصلے قسمت میں‌لکھے ہیں
اور اس قسمت کے لکھےکو
بدل تم بھی نہیں سکتیں، بدل میں بھی نہیں سکتا!
مگرمشکل یہ ہے کہ ہجر کے پُریچ رستوں پر
سنبھل تم بھی نہیں سکتیں، سنبھل میں‌بھی نہیں سکتا!
تو بہتر ہے کہ ہم اک دوسرے کی یاد کے ہمراہ ہو جائیں
کہ اب کہ اس محبت سے
نکل تم بھی نہیں سکتیں‌، نکل میں‌بھی نہیں سکتا!
سنو جاناں!
تمہاری شبنمی آہٹ میرے اندر دھڑکتی ہے
مگر جب خامشی سے تم کوئی معانی نہیں لیتیں
تو یہ دل روٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔
میرے اندر کہیں پر کچھ اچانک ٹوٹ جاتا ہے ۔

Tuesday, February 24, 2015

دن رات کے آنے جانے میں

دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں، کبھی منظر صاف نہیں ہوتے
کبھی سورج بات نہیں کرتا
کبھی تارے آنکھ بدلتے ہیں
کبھی منزل پیچھے رہتی ہے
کبھی رستے آگے چلتے ہیں
کبھی آسیں توڑ نہیں چڑھتیں
کبھی خدشے پورے ہوتے ہیں
کبھی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں
کبھی خواب ادھورے ہوتے ہیں
یہ تو سب صحیح ہے لیکن
اس آشوب کے منظر نامے میں
دن رات کے آنے جانے میں
دنیا کے عجائب خانے میں
کچھ سایہ کرتی آنکھوں کے ، پیماں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاتھوں سے اگرچہ دور سہی، امکاں تو دکھائی دیتے ہیں!
ہاں، ریت کے اس دریا سے ادھر
اک پیڑوں والی بستی کے
عنواں تو دکھائی دیتے ہیں!
منزل سے کوسوں دور سہی
پردرد سہی، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چور سہی
پر کس سے کہیں اے جان وفا
کچھ ایسے گھاؤ بھی ہوتے ہیں جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بن روئے ہوئے آنسو کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتے ہیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ہوتی، سپنے بھی دور نہیں ہوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رہتے ہیں! کیوں ساری رات نہیں سوتے!
اب کس سے کہیں اے جان وفا
یہ اہل وفا
کس آگ میں جلتے رہتے ہیں، کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتے

تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا

تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ دل کے کھیل میں کیا جیتنے والے بھی روتے ہیں
وہ جن کی چشم خود بین اوروں کو دیکھا نہیں کرتی
بھلا کس دل سے غم کے تار میں موتی پروتے ہیں
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ کیا مانند شیشہ پتھروں میں بال آتا ہے
اثر انگیز ہے اب تک محبّت کا وہی جذبہ
جو ایسے ہوشمندوں کو بھی یوں پاگل بناتا ہے
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
مزاج حسن میں یوں یک بیک کیا انقلاب آیا
ستارہ دیکھنا اور دیکھ کر افسردہ ہو جانا
بڑی تاخیر سے تم کو ستاروں کا حساب آیا
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ ترک ربط پر کیا مجھ سے وحشی یاد آتے ہیں
تعلّق توڑنا آسان تھا تو آنکھ کیوں نم ہے
انا پرور ،جفا پیشہ بھی یوں آنسو بہاتے ہیں
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ جلنے اور جلانے میں بھلا کیا لطف آتا ہے
بس ایک جھوٹی انا کے واسطے برباد ہو جانا
خودی کے زعم میں انسان کتنے دکھ اٹھاتا ہے

وہی بے وجہ سی اُداسیاں کبھی وحشتیں تیرے شہر میں

...................... تیرے شہر کے نام

وہی بے وجہ سی اُداسیاں کبھی وحشتیں تیرے شہر میں
تو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں تیرے شہر میں 
میری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تو نے پڑھا نہیں 
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں میری خواہشیں تیرے شہر میں 
سبھی ہاتھ مجھ پہ اُٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے 
میری سادگی کے لباس پر پڑیں سلوٹیں تیرے شہر میں 
وہ جو خستہ حال غریب تھے کہیں بستیوں میں مقیم تھے 
اُنہں کیا ہوا جو وہ سہہ گئے سبھی تہمتیں تیرے شہر میں 
یہاں لوگ بکتے ہیں دوستو یہاں تاجروں کی کمی نہیں 
ہر شخص کی ہیں لگی ہوئی کئی قیمتیں تیرے شہر میں 
تو بھی یاد ماضی میں ہے مگر کہ خواب اور بھی تھے عقیل 
پھر یہ ہوا کہ دفن ہوئیں سبھی چاہتیں تیرے شہر میں

Monday, February 23, 2015

نہ کرو محبت

نہ کرو محبت
تمہارے چہرے کی معصومیت
کرب میں بدل جائے گی
تمہاری شوخ نگاہوں میں
اداسی اتر آئے گی
تم تو کسی کی بات نہیں سنتے
لوگوں کے طنز کیسے برداشت کرو گے
دوست طرح طرح کے سوال کریں گے
بھلا تم کیا جواب دو گے
تنہا اداس راتوں میں 
ستارے گنوں گے یا پھر
چاند کا دامن پکڑ کے رؤں گے
تم تو تنہائی سے ڈرتے ہو
پھر بھلا تنہا تنہا کیسے رہو گے
نہ کرو محبت
تمہارے چہرے کی معصومیت
کرب میں بدل جائے گی
تمہاری شوخ نگاہوں میں
اداسی اتر آئے گی
ہر طرف زمانے کی نگاہیں ہیں
تم کب تک اپنی آنکھوں میں خواب چھپاؤ گے
کبھی تو پت جھڑ کا موسم آئے گا
کبھی تو خواب آنکھوں سے برسیں گے
تم بھلا ضبط کے بندھن کیسے باندھو گے
محبت جھلکتی ہے تمہاری آنکھوں سے
کس کس سے اپنی آنکھیں چھپاؤ گے
تمہیں تو اکثر بھول جانے کی عادت ہے
میں تمہارے حافظے پہ نقش ہوجاؤں تو
تم مجھے بھلا کیسے مٹاؤ گے
نہ کرو محبت
تمہارے چہرے کی معصومیت
کرب میں بدل جائے گی
تمہاری شوخ نگاہوں میں
اداسی اتر آئے گی
کبھی تنہائی میں سوچو گے
کبھی بے نیند خواب دیکھو گے
اور جب کبھی خواب کو ٹوٹتا دیکھو گے
زندگی تو الجھ جائے گی انہی خوابوں میں
بھلا پھر ان خوابوں کے سحر سے کیسے بچ پاؤ گے
کسی کی طلب میں دور جانے کے بعد
اکثر واپسی کے راستے کھو جاتے ہیں
جس کے ہجر میں اپنی نیند گنواؤں گے
اگر اسے پا نہ سکے تو پھر
بھلا تم اسے کیسے بھولاؤ گے
نہ کرو محبت
تمہارے چہرے کی معصومیت
کرب میں بدل جائے گی
تمہاری شوخ نگاہوں میں
اداسی اتر آئے گی

میرے خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں دینا


کہا تھا ناں
میرے خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں دینا
جُدائی کی سبھی باتیں میری آنکھوں میں پڑھ لینا
میری اس مُسکراہٹ میں
اگر محسوس کر پاؤ 
تو میرے آنسوؤں کی تم نمی محسوس کر لینا
کہیں جو رہ گئی ہے وہ کمی محسوس کر لینا
میری سوچیں
میرے الفاظ کا جب روپ دھار لیتی ہیں
تمہارا عکس بنتا ہے
میری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں
تمہارا ذکر چلتا ہے
تمہاری یاد ماضی کے دریچے کھول دیتی ہے
تمہاری شبنمی آہٹ مجھ سے یہ بول دیتی ہے
کہا تھا ناں
ہمارے درمیاں یہ فاصلے قسمت میں لکھے ہیں
اور اس قسمت کے لکھے کو
بدل تم بھی نہیں سکتیں،بدل میں بھی نہیں سکتا
مگر مشکل یہی ہے ہجر کے پُر پیچ راستوں پر
سنبھل تم بھی نہیں سکتیں ، سنبھل میں بھی نہیں سکتا
تو بہتر ہے کے ہم ایک دوسرے کی یاد کے ہمراہ ہو جائیں
کہ اب اس محبت سے
نکل تم بھی نہیں سکتیں، نکل میں بھی نہیں سکتا
سنو جاناں
تمہاری شبنمی آہٹ میرے اندر دھڑکتی ہے
مگر جب خاموشی سے تم کوئی معنی نہیں لیتیں
تو یہ دل روٹھ جاتا ہے
میرے اندر کہیں پر کچھ ٹوٹ جاتا ہے

سنو! تم دیر مت کرنا

سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو، کوئی آنکھیں
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
کسی کی یاد کی آنکھیں
تمہیں ہر لمحہ تکتی ہیں
کسی کی آنکھ میں جاناں
تمہاری یاد کی بارش ہر اک لمحہ برستی ہے
تمہیں بس سوچتے رہنا کسی کا کام رہتا ہے
سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو، کوئی آنکھیں
کوئی چہرہ، کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
تمہاری یاد کا موسم تو صبح و شام رہتا ہے
کسی کے ہونٹ پر ہر دم تمہارا نام رہتا ہے
سنو! تم دیر مت کرنا
کوئی آنسو کوئی آنکھیں، کوئی چہرہ،کوئی لہجہ
کوئی آواز تم کو جس قدر روکے
مگر تم دیر مت کرنا
سنو! تم دیر مت کرنا

تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے


تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرناہے
نہ ہم نے تیری آنکھوں میں ستاروں کی چمک دیکھی
نہ ہم نے تیرے ہونٹوں کی لرزتی پتیوں پر
اَن کہے لفظوں کی شبنم تیرتے دیکھی ،نہ ماتھے پر کوئی مہتاب دیکھا اور نہ کانوں میں لہکتی بالیوں کے رنگ میں
مہتاب کرنوں کا ہنر دیکھا
ترے آنچل کا ریشم سینۂ خالی سے لپٹا ہے
نہ تیرے موم ہاتھوں کی دھنک پوروں کا جادوہی
مشامِ جاں میں اترا ہے
بس اک خوابِ گریزاں کی طرح پلکوں کو چھو کر لوٹنے والے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یادکرنا ہے
’’ہجومِ مہرباں‘‘ پہلے بھی اتنا کم نہ تھا جاناں
کبھی ساحل کی گیلی ریت پر کچھ دیر ننگے پاؤں رک کر دیکھنا پاؤں کے تلووں سے عجب انداز سے پانی کی لہریں ریت کے شفاف ذرّوں کو چرالے جائیں گی، کچھ یوں لگے گا جیسے پاؤں ریت کے اندر مسلسل دھنس رہے ہیں، زندگی کے مسئلے بھی اک ’’ہجوم مہرباں‘‘ کی طرح یوں ہی پاؤں کی مٹّی چراتے ہیں ہمارے پاؤں کی مٹّی چرائی جاچکی ہے
اب ذرا فرصت ملی تو عمر رفتہ پر نظر کی ،دیکھتے کیا ہیں کہ ہم تو
اس ’’ہجومِ مہرباں‘‘ سے جنگ میں ساری کمائی ہار بیٹھے ہیں
بس اک دھڑکن ہے جو ویرانۂ دل میں تماشا کررہی ہے
کیا خبر تھی، زندگی کے مسئلوں کا یہ ’’ہجومِ مہرباں‘‘جب
آدمی کو گھیر لیتا ہے، لہو کا آخری قطرہ تک اس کے محنتی ہاتھوں کی پوروں سے ڈھلک جاتا ہے، تب جاکر اسے ترکے میں اک یہ خیمۂ ارض و سما اور اک چراغِ شام ملتا ہے
ہمیں اب اس چراغِ شام کی ٹھنڈی ،سجیلی
دودھیاچھاؤں میں بیٹھے بیٹھے تجھ کو یاد کرنا ہے
مگرخوابِ گریزاں کی طرح پلکوں کو چھو کر لوٹنے والے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے
نہ ہم نے تیری آنکھوں میں ستاروں کی چمک دیکھی
نہ ماتھے پر کوئی مہتاب دیکھا ہے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے

آؤ جاناں ۔۔۔ تمہیں دکھاؤں

آؤ جاناں ۔۔۔ تمہیں دکھاؤں

وہ خواب جاناں
جو میری آنکھیں سلگتے لمحوں میں دیکھتی ھیں
یہ دیکھتی ھیں
سنہری شامیں بدن پہن کر تمہارے ہمراہ چل رہی ھیں
جمیل صبحیں وصال اوڑھے تمہاری باھوں میں آگری ھیں
یہ خواب کیا ھیں
یہ دھند کیسی
یہ میری آنکھوں کو کیا ھوا ھے
یہ آنسوؤں کی نمی سی کیا ھے
یہ خواب بہہ کر کہاں چلے ھیں
جو ان گنت بے شمار راتوں کے رتجگوں سے کشید کرکے سنبھال رکھے تھے
کیا ھوۓ ھیں
لہو کی حدت کو سرد کرتا رگوں میں جمتا یہ زرد پڑتا ملال کیا ھے
تو جا چکا ھے
وہ کون ھوگا جو یاد رکھے
میرے دکھوں کا حساب رکھے
جو خاک اوڑھے کبھی ملوں تو
بے آب گِل کو بھی آنسوؤں سے سراب رکھے
میرے مقدر کی خاک پر جو
بہار رت کا گلاب رکھے

Sunday, February 22, 2015

مرا سب کچھ سفر میں ہے

مرے ساتھی
مری آنکھیں، مری سوچیں، مرا تن من
مرا سب کچھ سفر میں ہے
اسی دن سے کہ جب ہم پر
جدائی کا سمے گزرا
سنو جاناں, سنو جاناں
تمہیں تو یاد ہی ہو گا
میں ایسا چاہتا کب تھا مگر پھر بھی
تمہیں جب چھوڑ کر جانا پڑا مجھ کو
تمہارے گال پر میں نے جو منظر آخری دیکھا
اذیت ناک منظر تھا
تمہیں بھی یاد ہو شاید
بچھڑتے وقت کے سورج کی اس دھیمی تمازت سے
ترے دل پر جمی جب برف پگھلی تھی
تو پھر جذبات کے دریا میں اک سیلاب آیا تھا
کوئی گرداب آیا تھا
سنو جاناں
تو پھر دیکھا کہ اس سیلاب کی اک موج
تیری آنکھ کے ساحل سے ٹکرا کر
تری پلکوں کے رستے سے ترے رخسار پر آ کر
کوئی گمنام منزل ڈھونڈنے لمبے سفر میں تھی
مگر میری نظر میں تھی
سنو جاناں! یقیں جانو
کہ اب بھی رات کو اکثر
ترے آنسو کی وہ لمبی مسافت
یاد آئے تو
مجھے بے چین رکھتی ہے
مجھے شب بھر جگاتی ہے
مجھے پاگل بناتی ہے​

Saturday, February 21, 2015

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ

ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺍﺫﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﻟﻤﺤﮯ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ
ﮐﮧ ﺟﺐ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﮐﺌﯽ ﺟﻤﻠﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﭧ ﺳﮯ ﮨﯽ
ﭘﺘﮭﺮ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻦ ﮐﺮﺗﯽ
ﭼﯿﺨﺘﯽ ﮔﻮﯾﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺩﻝِ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺁﺭﺯﻭﺅﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﮞ ﻻﺷﻮﮞ ﭘﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﮩﺎﮞ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﺮﺩ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮑﺘﮯ
ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ
ﺩﻭ
ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ
!ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﻭ

کبھی خوشبو کے شہرے میں

کبھی خوشبو کے شہرے میں
کبھی رنگوں کی صورت میں
کہیں پر مثلِ دردِ راہ بن کر مُڑ رہے ہیں ہم
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
ہتھیلی پر سفر کی انگنت اندھی لکیریں تھیں
سروں پر دھوپ تھی اور پاؤں تھے جلتی زمینوں پر
ہمیں چلنا تھا سو چلتے رہے چلتے رہے ہر پل
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کسی موسم کے ماتھے پر نہیں لکھا گیا ہم کو
مگر اک آس کی خوشبو ہمارے ساتھ تھی ہر دم
کوئی تھا منتظر اپنا ، کسی کے منتظر تھے ہم
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار

یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر

یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر
میرے سارے سپنوں کو توڑ کر
میری راہگزر کو اجاڑ دے
یہ جو مان ہے اسے توڑ کر
میرے دوست مجھ کو فریب دے
مجھے نفرتوں کا عذاب دے
مجھے دے تو اتنی اذیتیں
میری ذات کو یوں بگاڑ دے
میرے قلب کو دے نیا زخم
میری روح میں نشتر اتار دے
مجھے خواب دے کسی ابر کا
اور کسی قبر میں اتار دے
مجھے ایسے رستوں پہ لے کے چل
کہ قدم بڑھاؤں تو گر پڑوں
میرے زخم زخم وجود میں
تو اک اور تیر اتار دے
یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر!
کچھ اسطرح سے ستم بڑھا
کہ میری زندگی ہی مجھے مار دے

ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ

ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟﮨﻢ
ﮐﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﺴﯽ ﭘﮧ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ﺟﯿﺴﮯ
ﻣﮕﺮ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﺭﺍﺯﺩﺍﮞ ﺟﯿﺴﮯ
ﺧﻔﺎ ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﯾﻮﮞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺩﻝ ﺣﺴﺎﺱ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﺹ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ

Friday, February 20, 2015

ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻏﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻏﻢ

ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻏﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻏﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﺯ ﻭ ﺷﺐ ﮐﯽ ﻓﯿﺼﻞ
ﭘﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻮﺭ ﭘﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺑﻦ ﮐﮯ ﺍﺗﺮ ﮔﯿﺎ
ﺟﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﭘﮍﺍﺅ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺏ ﺍﺷﮏ
ﮐﯽ ﺟﮭﯿﻞ ﭘﺮ
ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﺧﯿﺮ ﺧﻮﺍﮦ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ
ﺗﮭﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺍﮐﮫ ﺗﮭﺎ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩﮦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻭﺻﺎﻝ
ﮐﯽ
ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻻﺅ ﺗﮭﺎﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﺠﺮ ﮐﺎ
ﮐﺴﯽ ﺷﮩﺮ ﺻﺒﺮ ﮐﯽ ﺳﯿﺞ ﭘﺮ
ﺟﻮ ﺳﮑﻮﺕ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ
ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺮﺩ ﺁﮦ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺎﺭ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﮯ
ﺑﺴﺘﺮﻭﮞ ﭘﮧ ﺍﮔﮯ ﮨﻮﺋﮯ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﺭﺯﻭ
ﻣﯿﺮﺍ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﻗﺘﻞ ﮔﺎﮦ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎ ﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺭﯾﺸﮧ ﺭﯾﺸﮧ ﺟﻤﻮﺩ
ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺸﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺷﺖ ﺩﻝ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺸﻢ ﻧﻢ، ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺸﻢ
ﻧﻢ
ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻧﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻧﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺍﺱ ﺁ
ﻣﯿﮟ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﯿﺴﯽ ﺍﺫﯾﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻓﺎﻗﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﻟﺠﮫ ﮔﯿﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﻋﮩﺪ ﺣﺎﻟﺖ ﺯﺍﺭ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭻ ﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ
ﻭﮨﯽ ﺯﺭﺩ ﺭﺕ ﻭﮨﯽ ﺯﺭﺩ ﺭﺕ
ﻭﮨﯽ ﺑﺮﻑ ﺳﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻗﺪﻡ
ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻧﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﻧﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺍﺱ ﺁ

اے شمعِ کوئے جاناں

اے شمعِ کوئے جاناں
ھے تیز ھوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ھوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ھوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ھوگا
بولے گا نہ کچھ لیکن ، فریاد کُناں ھوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راھی --------- وہ سوختہ پروانہ
جب آئے یہاں اُس کو مایوس نہ لوٹانا
ھو تیز ھوا کتنی ، لَو اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا -------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں اِک پھول نے کھلنا ھے !!
اُس نے انہی گلیوں میں ، اِک شخص سے ملنا ھے

امجد اسلام امجد