محبت کی زبان ہوتی
تو ہم بولتے رہتے
کئ گھنٹے
کئ صدیاں
کئ عمریں
اسی گفتار، اسی رفتار میں ہی بیت جاتی اور ہمیں لگتا
ابھی تو کچھ نہیں بولا
ابھی تو بہت کہنا ہے
جو جذبوں میں دھنک ہوتی
تو دنیا کے فلک پر چار سو
جو رنگ رہتےاپنے ہی ہوتے
نہ مٹتے وہ کبھی، نہ ہی کبھی دھندلائے وہ جاتے
کہ دنیا انھی کے رنگوں سے جوان رہتی
سدا رہتی، ۔جہاں رہتی
اگر امیدیں پل ہوتی
تو ان کو مل کر ہم بنتے
بڑے مضبوط پل چنتے
انھیں تعمیر کرنے کے
انھیں تکمیل دینے کے
انھیں ایسا بناتے کہ سبھی کی راہ گذر ہوتی
سبھی کے واسطے اک دن، یہی راہ عمل ہوتی
اگر امیدیں پل ہوتیں
اگر اظہار ہرشے کا، خودی خود آپ ہی ہوتا
تو کیا ہوتا
بھلا ہوتا
برا ہوتا
نہ جانے کیا سے کیا ہوتا
مگر یہ فرضی باتیں ہیں
نہ ہوتی ہیں، نہ یہ ہوں گی
محض مفروضوں کی بنیاد ہیں یہ تو سبھی باتیں
کہ جس مٹی سے اپنا جسد قائم ہے، اسی میں تو
دلیلیں مانگتے رہنے کا بھی پانی ملایا تھا
ہمیں جب اُس خدا نے اس زمیں کا حاکم بنایا تھا
تو کیسے چھوڑ دیں فطرت
تو کیسے سب بدل ڈالیں
کہ اپنی زیست کا یہ کارواں اب رک نہیں سکتا
کہ ہم انسانوں کی اندھی اناء کا لمبا مینارہ
یہ قائم ہے ہمیشہ سے
یہ اب تو جھک نہیں سکتا
یہی قانونِ قدرت ہے
یہی ازلی حقیقت ہے
سو اب جب وہ ہی ہونا ہے
جو فطری ہے، حقیقی ہے
تو ہم اک کام کر ڈالیں
ہم اپنے آپ رک جائیں
خودی کو ہم بدل ڈالیں
ہمیں اظہار کرنا ہے
ہمیں الفاظ دینے ہیں
ا ُسی ازلی حقیقت کو
ا ُسی ازلی حقیقت کو
Saturday, February 7, 2015
محبت کی زبان ہوتی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment