Sunday, February 8, 2015

ہم دونوں کب اپنے تھے

ہم دونوں کب اپنے تھے
یاد ہے تم کو میں نے تم سے
سارے موسم بانٹے تھے
یاد ہے تم کو میں نے اپنا
ہر اک روپ دِکھایا تھا
اپنی ذات کے ہر اِک جھوٹ سے
ہر سچ سے مِلوایا تھا
چائے کے اِک کپ سے لے کر
ساون کی بارش کے پہلے قطرے تک 
اپنے سنگ تمہیں رکھا تھا
اپنے سنگ تمہیں پایا تھا
یاد ہے تم کو، تم سے مل کر
میں کیسے کھل اُٹھتی تھی
تم سے من کی باتیں کر کے
کتنی خوش ہو جاتی تھی
تم کو یاد یقیناً ہو گا
وہ جو افسانوں کو پڑھ کر
تم سے بحث ہوا کرتی تھی
کیسی کیسی بے تُکی سی باتوں پر
محفل دیر تلک سجتی تھی
لمبے لمبے خطوں میں اپنے
چھوٹے چھوٹے جھگڑے تھے
سب سے نرالے خواب تھے اپنے
سب سے اچھوتے سپنے تھے
ہاں وہ شاید خواب تھے سارے
ہاں وہ شاید سپنے تھے
ہم دونوں تھے غیر ازل سے
ہم دونوں کب اپنے تھے

No comments:

Post a Comment