تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرناہے
نہ ہم نے تیری آنکھوں میں ستاروں کی چمک دیکھی
نہ ہم نے تیرے ہونٹوں کی لرزتی پتیوں پر
اَن کہے لفظوں کی شبنم تیرتے دیکھی ،نہ ماتھے پر کوئی مہتاب دیکھا اور نہ کانوں میں لہکتی بالیوں کے رنگ میں
مہتاب کرنوں کا ہنر دیکھا
ترے آنچل کا ریشم سینۂ خالی سے لپٹا ہے
نہ تیرے موم ہاتھوں کی دھنک پوروں کا جادوہی
مشامِ جاں میں اترا ہے
بس اک خوابِ گریزاں کی طرح پلکوں کو چھو کر لوٹنے والے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یادکرنا ہے
’’ہجومِ مہرباں‘‘ پہلے بھی اتنا کم نہ تھا جاناں
کبھی ساحل کی گیلی ریت پر کچھ دیر ننگے پاؤں رک کر دیکھنا پاؤں کے تلووں سے عجب انداز سے پانی کی لہریں ریت کے شفاف ذرّوں کو چرالے جائیں گی، کچھ یوں لگے گا جیسے پاؤں ریت کے اندر مسلسل دھنس رہے ہیں، زندگی کے مسئلے بھی اک ’’ہجوم مہرباں‘‘ کی طرح یوں ہی پاؤں کی مٹّی چراتے ہیں ہمارے پاؤں کی مٹّی چرائی جاچکی ہے
اب ذرا فرصت ملی تو عمر رفتہ پر نظر کی ،دیکھتے کیا ہیں کہ ہم تو
اس ’’ہجومِ مہرباں‘‘ سے جنگ میں ساری کمائی ہار بیٹھے ہیں
بس اک دھڑکن ہے جو ویرانۂ دل میں تماشا کررہی ہے
کیا خبر تھی، زندگی کے مسئلوں کا یہ ’’ہجومِ مہرباں‘‘جب
آدمی کو گھیر لیتا ہے، لہو کا آخری قطرہ تک اس کے محنتی ہاتھوں کی پوروں سے ڈھلک جاتا ہے، تب جاکر اسے ترکے میں اک یہ خیمۂ ارض و سما اور اک چراغِ شام ملتا ہے
ہمیں اب اس چراغِ شام کی ٹھنڈی ،سجیلی
دودھیاچھاؤں میں بیٹھے بیٹھے تجھ کو یاد کرنا ہے
مگرخوابِ گریزاں کی طرح پلکوں کو چھو کر لوٹنے والے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے
نہ ہم نے تیری آنکھوں میں ستاروں کی چمک دیکھی
نہ ماتھے پر کوئی مہتاب دیکھا ہے
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے
Monday, February 23, 2015
تجھے کس یاد کی نسبت سے ہم کو یاد کرنا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment