...................... تیرے شہر کے نام
وہی بے وجہ سی اُداسیاں کبھی وحشتیں تیرے شہر میں
تو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں تیرے شہر میں
میری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں میری خواہشیں تیرے شہر میں
سبھی ہاتھ مجھ پہ اُٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے
میری سادگی کے لباس پر پڑیں سلوٹیں تیرے شہر میں
وہ جو خستہ حال غریب تھے کہیں بستیوں میں مقیم تھے
اُنہں کیا ہوا جو وہ سہہ گئے سبھی تہمتیں تیرے شہر میں
یہاں لوگ بکتے ہیں دوستو یہاں تاجروں کی کمی نہیں
ہر شخص کی ہیں لگی ہوئی کئی قیمتیں تیرے شہر میں
تو بھی یاد ماضی میں ہے مگر کہ خواب اور بھی تھے عقیل
پھر یہ ہوا کہ دفن ہوئیں سبھی چاہتیں تیرے شہر میں
No comments:
Post a Comment