ہوا کیوں بھول جاتی ہے
کہ اپنے رتجگے تیرا اثاثہ ہیں
ہماری جاگتی راتوں کی ساری کرچیاں
آنکھوں میں چبھتی ہیں
تو کچھہ یاد آتا ہے
سفر ، آوارگی ، ہجر و وصال دلفگاراں
محفل لالہ رخاں ، عکس ہجوم گلغزاراں
ماتم یاراں
ہوا
اندھی ہوا
جب بھی تھکے ہارے پرندوں کی طرح
خود ٹوٹ کر بکھرے ہوۓ پتے
زمیں کی خاک چنتی ہے
بھٹکتے رہروؤں کے نقش پا
رستوں کی پتھریلی ہتھیلی سے اٹھاتی ہے
کسی اجڑے ہوۓ کھنڈر کی خامشی
جب سنسناتی ہے
ہوا کیوں بھول جاتی ہے
کہ ہم اپنے کوڑوں کو تیری دستک سے پہلے
اپنے بوسیدہ گریبانوں کی صورت کھول دیتے ہیں
تیری خاطر ہم اپنی آنکھوں میں
ستارے گھول دیتے ہیں
مگر کب تک
مگر کب تک
تجھے تو خیر یوں بھی راس ہے
صدیوں کا سناٹا ، سفر ، آوارگی
موسم کی بے مہری
مگر کب تک
ہماری آنکھوں میں چبھتے رتجگے کب تک ؟؟
خود اپنے آپ ملنے میں حائل فاصلے کب تک
ہوا کیوں بھول جاتی ہے
کہ ہم تیرے سوا اپنے بھی کچھ لگتے تو ہیں آخر
ہوا تجھ سے جو ممکن ہو
تو صدیوں کی تھکن اشکوں سے دھونے دے
ہمیں کھل کے رونے دے
دل بے مہر کو چبھتے ہوۓ خوابوں کے
پس منظر میں کھونےدے
ہوا پل بھر کو سونے دے
Friday, February 6, 2015
ہوا کیوں بھول جاتی ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment