Saturday, February 14, 2015

سنو لوٹ آؤ نا لوٹ آؤ نا

میری ڈائری سے لپٹا
گلاب کا پھول
آج بھی تمہاری یاد کی طرح
مہکتا ہے
یاد ہے تم نے کس ناز سے کہا تھا
سنو جی یہ گل میرے بالوں میں
سجا دو نا
اس پل تمہارے گیسوؤں سے
اٹھتی ہوئی وہ سوندی سی مہک
آہ
آج تک اس پر کیف احساس کے
حصار میں ہوں
جب حنا سے مزین ان نازک سی
انگلیوں نے میرے ہاتھوں کو تھاما تھا
وہ دلگداز لمس اب تلک میری
یادوں سے لپٹا ہے
وہ سحر انگیز باتیں
وہ سبھی یادیں
میری ڈائیرٰ کے بوسیدہ
اوراق کو آج بھی مہکاتی ہیں
سنو۔۔۔۔۔۔! جب شدت سے
تمہاری یاد آۓ تو
ڈائری کے اس پنے کو الٹ کر
اپنی نم آنکھوں سے مس کرتا ہوں
اسی پنے پر
وہ گیسوؤں کی خوشبو
وہ ہاتھوں کا لمس
وہ ان مٹ یادیں
وہ سبھی باتیں
سب کچھ تو ہے پر
بس تمہاری کمی ہے
سنو لوٹ آؤ نا
لوٹ آؤ نا

No comments:

Post a Comment