Saturday, February 21, 2015

یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر

یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر
میرے سارے سپنوں کو توڑ کر
میری راہگزر کو اجاڑ دے
یہ جو مان ہے اسے توڑ کر
میرے دوست مجھ کو فریب دے
مجھے نفرتوں کا عذاب دے
مجھے دے تو اتنی اذیتیں
میری ذات کو یوں بگاڑ دے
میرے قلب کو دے نیا زخم
میری روح میں نشتر اتار دے
مجھے خواب دے کسی ابر کا
اور کسی قبر میں اتار دے
مجھے ایسے رستوں پہ لے کے چل
کہ قدم بڑھاؤں تو گر پڑوں
میرے زخم زخم وجود میں
تو اک اور تیر اتار دے
یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر!
کچھ اسطرح سے ستم بڑھا
کہ میری زندگی ہی مجھے مار دے

No comments:

Post a Comment