Tuesday, February 24, 2015

تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا

تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ دل کے کھیل میں کیا جیتنے والے بھی روتے ہیں
وہ جن کی چشم خود بین اوروں کو دیکھا نہیں کرتی
بھلا کس دل سے غم کے تار میں موتی پروتے ہیں
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ کیا مانند شیشہ پتھروں میں بال آتا ہے
اثر انگیز ہے اب تک محبّت کا وہی جذبہ
جو ایسے ہوشمندوں کو بھی یوں پاگل بناتا ہے
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
مزاج حسن میں یوں یک بیک کیا انقلاب آیا
ستارہ دیکھنا اور دیکھ کر افسردہ ہو جانا
بڑی تاخیر سے تم کو ستاروں کا حساب آیا
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ ترک ربط پر کیا مجھ سے وحشی یاد آتے ہیں
تعلّق توڑنا آسان تھا تو آنکھ کیوں نم ہے
انا پرور ،جفا پیشہ بھی یوں آنسو بہاتے ہیں
تمہاری بھیگتی پلکوں سے میں نے بارہا پوچھا
کہ جلنے اور جلانے میں بھلا کیا لطف آتا ہے
بس ایک جھوٹی انا کے واسطے برباد ہو جانا
خودی کے زعم میں انسان کتنے دکھ اٹھاتا ہے

No comments:

Post a Comment