Wednesday, February 11, 2015

خواب ٹوٹ جاتے ہیں

خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانےکی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں

دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں ، غیر بن کے ملتے ہیں

عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشت بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا
خامشی کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہے اور سرا نہیں ملتا

معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذت پزیرائی پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی
منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بے رخی کے گارے سے ، بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے ، اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اڑنے لگتی ہے

خواب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے، عمر بھر کی محنت کو
پل میں لوٹ جاتے ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں

بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment