ایک اضطرابِ مسلسل ہے
عجب اک وحشتِ دل ہے
ہر کوچہ ہے ویراں سا
ہر گوشہ خالی ہے
نہ ہلچل نہ کوئ جھلمل
نہ دھڑکن دل کی زندہ ہے
بس کچھ اشک ہیں بپھرے
جنکی جامد طغیانی ہے
طاری آشفتگی سی ہے
عجب پژمردگی سی ہے
نہ حوصلوں کا رہا یزداں
شکستگی کی یاری ہے
نہ دم نکلے نہ جاں ٹھہرے
مرگِ مسلسل جاری ہے!
اے امید کہاں ہے تو؟
کیوں میری نہیں سنتی؟
دعا سے آس خالی ہے ۔۔
لبوں پہ پیاس جاری ہے ۔۔
کہاں ہے بچوں کے سر کا وہ سایہ
کیوں ہیں تپش میں جھلسے سب
وہ بوڑھے ماں باپ کہ جن کی
امیدوں کا جگمگاتا وہ چراغ
وہ جو انکے کندھوں پر کھیلا تھا
آج انہی کندھوں پر، روانہ ہے
پر مستی میں مگن ہیں سب
یہ کیا اور کیسا زمانہ ہے
قتل سرِ بازار ہوتے ہیں
شامل جن میں یار ہوتے ہیں
پر ہیں صم بکم سب
نہ دیکھیں اور نہ سنتے ہیں
دیکھو ناں کیا کیسے گزرتی ہے
سنو ناں ۔۔
بوڑھی ماں کیسے سسکتی ہے
باحیا عزتوں کی وہ ردا
سرِراہ کیسے اترتی ہے
دیکھو ناں بےبس بھائ وہ سارے
لاشوں کے ٹکڑے کیسے چنتے ہیں
کیسے انہیں بیٹھ سیتے ہیں
وہ بیوہ صبر کے آنسو
کیسے چپ چاپ پیتی ہے
وہ یتیم معصوم سی بچی
کیسے بن آغوش ترستی ہے
یہاں کوئ کسی کی نہیں سنتا
ہم نے تو اسلام پھیلانا تھا
بھائ چارہ نبھانا تھا
اخوت کا درس سکھانا تھا
حق لاالہ الا اللہ سنانا تھا
یہ کیسی مدہوشی ہے
کہو یہ کیسی بے ہوشی ہے
مقصد سے ہم ہوۓ غافل
امیدِ کرم پھر بھی رکھتے ہیں
سجدہ زمین پر کرتے ہیں
دل میں کسی بت کو رکھتے ہیں
جہاد رکن ہمارا ہے
اور نفس دشمن ہمارا ہے
ملت اسلامی کا شیرازہ
کہو کیسے سلامت ہو
جب بنیاد ہی لرزاں ہو
کہو کیسی عمارت ہو
ہم ہیں باطن میں منتشر
تو کہو کیوں نہ قیامت ہو
یہ بے حسی خود غرضی
اللہ بھی دیکھتا ہو گا
تو کیا وہ بس دیکھتا ہو گا؟
نہیں وہ دیکھتا ہے سب
تو وہ سب ''دیکھ'' بھی لے گا
وہ ابھی بس ہم کو دیکھے ہے
کب تلک رکھیں گے آنکھیں بند
یہ آنکھیں بند ہی ہونی ہیں
نگاہ بند ہونے سے قبل
اے میرے مرگ زدہ سے دل
خوابِ غفلت سے اٹھو ںاں
میری بات سن لو ناں
مرنے سے پہلے ایک بار
تم آنکھیں کھول دیکھو ناں ۔۔۔۔!
میری بات یاد رکھنا تم
اگر آج ظلم سے نظریں چراۓ ہو
حقیقت کو بھلاۓ ہو
تو پھر تم خود بھی ظالم ہو
وہ دن دور نہیں جب اک دن
یہ حقیقت تم تک بھی آۓ گی
یہ وقت ہم سب پر آنا ہے
اس لمحے سے قبل
خوابِ غفلت سے اٹھو ںاں
میری یہ بات سن لو ناں
مرنے سے پہلے بس ایک بار
تم آنکھیں کھول دیکھو ناں
No comments:
Post a Comment