سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گُھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے تو پھر آخر
ہمیں رب سے بھلا کیسی محبت ہے ؟؟
نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سُلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی ہے نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے!
عجب ایسی محبت ہے!
فقط دعویٰ سُجھاتی ہے
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ صور میں چھپکے سکینیت بن کہ چھاتی ہے
حراء تک لے بھی جائے
تو قدس سے نظریں چُراتی ہے
ہم اپنے دعویٰ حق ِمحبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدا آئی!
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا!
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Friday, February 20, 2015
محبت چیز ایسی ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment