Tuesday, February 17, 2015

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں، تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آ کر

اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غم احباب!
میں نے تو کہاں تھا کہ میرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے!
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

برہم نہ ہو کم فہمیء کوتہ نظراں پر!
اے قامت_فن، اپنی بلندی کا گلہ کر

اے دل ، تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے؟
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر

میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موج_ہوا میں
اب ریت کے سپنے پہ میرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب میری رفتار کا عالم!
اے گردش_دوراں ، ذرا تھم تھم کے چلا کر

اس رت میں کہاں پھول کھلۂں گے دل_ناداں؟
زخموں کو ہی وابستہء زنجیر_صبا کر

اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں "محسن"
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

"برگ_صحرا سے انتخاب"
شاعر: "محسن نقوی"

No comments:

Post a Comment