اس دور کا سب سے نمایاں رجحان یہ ہے کہ جو تم ہو وہ نظر نہ آؤ۔ یہ معاشرے کا دباؤ ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری پر مجبور کرتا ہے۔ ہم باہر سے بہت ثابت و سالم اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں لیکن اندر سے ریزہ ریزہ اور اذیت زدہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہم نے معاشرے کے اس ظالمانہ دباؤ کو کیوں قبول کر رکھا ہے۔
آپ ہرگز خوش حال نہیں ہیں مگر آپ کی یہ مجال نہیں کہ خوش حال نظر نہ آئیں۔ تین مہینے سے آپ نے گھر کا کرایہ ادا نہیں کیا، قرض پر آپ کا مدار ہے لیکن آپ کے خیالات اور نظریات اور ایک خوش حال آدمی کے خیالات اور نظریات میں کوئی فرق نہیں۔ آپ کا سیاسی نقطۂ نظر بالکل وہی ہے جو دولت مند لوگوں کا نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آپ اتنے محروم آدمی ہیں کہ احساسِ محرومی سے بھی محروم ہیں۔ حقیقتِ حال سے اس درجہ انکار! ذات اور ذہن پر معاشرے کا اتنا دباؤ۔
لوگ کیا کہیں گے؟ کچھ بھی نہیں، انہیں کہنے دیجیے۔ حد سے حد یہی تو کہیں گے کہ دونوں نے شادی کی تھی جو ناکام ہو گئی۔ چلیے قصہ پاک ہوا مگر آپ ہیں کہ معاشرے سے بے تکان جھوٹ بولے چلے جا رہے ہیں۔
جناب آپ کل سے جس بددلی اور بیزاری میں مبتلا ہیں کیا اس کے ہوتے ہوئے آج آپ کو داڑھی بنانا زیب دیتا تھا اور آپ نے داڑھی ہی نہیں بنائی، بال بھی سنوارے ہیں اور خوشبو بھی لگائی ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ یہ سب کچھ آپ نے اپنی خاطر اور اپنی بددلی اور بیزاری کو دور کرنے کے لیے کیا ہو مگر میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ آپ نے یہ سب کچھ لوگوں کے لحاظ میں کیا ہے تاکہ وہ آپ کو ایک شائستہ اور نستعلیق آدمی سمجھیں۔ میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بددل اور بیزار ہیں اور بددل اور بیزار نظر بھی آ رہے ہیں تو اس میں عیب کی کیا بات ہے؟ شاید آپ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ آپ کا بددل اور بیزار نظر آنا پسند نہیں کرے گا۔ یقیناً ایسا ہی ہے اور جب ایسا ہی ہے تو اس بے حس اور ناہنجار معاشرے پر لعنت کیوں نہیں بھیجتے جس نے آپ کو ایک اداکار بنا کر رکھ دیا ہے۔
آپ مجھ پر شبہ نہ کریں۔ میں آپ کو بہکانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں خود پیچ و تاب میں مبتلا ہوں۔ خود میں بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہوں جس سے آپ دوچار ہیں۔ ہو سکتا ہے میری کیفیت آپ سے زیادہ اذیت ناک ہو اور مجھ میں آپ سے زیادہ دوغلا پن پایا جاتا ہو۔ یہ دوغلا پن ہی تو ہے کہ ہماری کیفیت ہو کچھ اور ہم ظاہر کچھ اور کریں۔
یہ ساری حرکتیں محض اس لیے کی جاتی ہیں کہ آدمی شائستہ اور بردبار نظر آئے۔ گویا شائستگی اور بردباری کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ اپنے آپ سے جھوٹ بولے اور ایسا نظر آئے جیسا ہو نہیں۔ اگر شائستگی یہی ہے تو کیا اس کے ایک انتہائی بے ہودہ شے ہونے میں کوئی شبہ کیا جا سکتا ہے۔
میں شاید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصل اور بے ساختہ آدمی کی اس معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اپنی اصل حالتوں اور کیفیتوں کے اظہار کے ساتھ اس معاشرے میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں پہلے صورتِ حال اتنی شدید نہیں تھی۔ اور شائستگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ بے ساختگی کے ساتھ زندگی گزارنے کا امکان بہت کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ معاشرے کی خاطر ہم ویسے نظر آئیں جیسے ہوں نہیں۔ وہی نظر آنا، نظر آنا، نظر آنا۔ لعنت ہے اس نظر آنے پر۔
No comments:
Post a Comment