Saturday, November 1, 2014

اوطاق ،بیٹھک، چوپال

مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے میرے ابو اور ان کے کزنز بیٹھے باتیں کر رہے تھے ہنسی مذاق ہو رہا تھا کہ کسی بات پہ ابو کو غصہ آ گیا اور انہوں نے اپنے ایک کزن کو سخت سست سنادیں ۔

میرے وہ انکل حق پر تھے وہ بھی غصہ کرتے پھر ایسے شو کرتے جیسے کہ واقعی قصور ان کا ہے ایسے ہی کچھ دیر چلتا رہا پھر دونوں خاموش ہو گئے سب نے دیکھ لیا کہ انکل نے غلطی تسلیم کر لی جو کہ میرے خیال میں انہوں نے کی ہی نہیں تھی ۔

خیر تھوڑی دیر بعد پھر سے ابو اور انکل قہقہے لگانے لگے ہنسنے بولنے لگے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ان کے بیچ تھوڑی دیر قبل کوئی جھگڑا ہوا ہے ۔

جب ابو اپنے کسی کام سے چلے گئے تو میں نے انکل سے پوچھا کہ انکل یہ کیا تھا آپ کا تو قصور نہیں تھا کیا آپ میں صلاحیت نہیں کہ خود کو ڈفینڈ کر سکیں شاید آپ ایک اچھے وکیل نہیں ؟

میرے انکل مسکرائے اور کہا تم ابھی بچے ہو سمجھ نہیں سکو گے پھر بھی بتا دیتا ہوں کہ تمہارے ابو کسی وجہ سے پریشان تھے وہ اندر سے دباؤ محسوس کر رہے تھے اور انہیں ضرورت تھی کہ وہ اس دباؤ کو باہر نکالیں اس پریشر سے نجات پائیں ۔
ٹھنڈے ہوں اور سکون محسوس کریں یہ میری خوش قسمتی کہ اس کام کے لیے انہوں نے مجھے چنا اور مجھ پہ غصہ نکالا اور گھٹن سے نجات پائی ۔

میں نے پوچھا اگر ایسا تھا تو آپ غصے میں کیوں آ رہے تھے جواب کیوں دے رہے تھے وہ پھر مسکرائے اور کہا بیٹا اگر میں جواب نہ دیتا تو کچھ گھٹن ان کے اندر رہ جاتی اگر میں ان کی غلظی کی نشاندہی کرتا تو وہ شرمندگی محسوس کرتے گھٹن بڑھ جاتی ۔

پھر انہوں نے کہا بیٹا میں اور آپ کے ابو رشتے دار کے سوا سچے دوست بھی ہیں اس نے جان بوجھ کر مجھ پہ غصہ کیا اسے پتہ ہے کہ میں برا نہیں مانوں گا

میں اب اپنے کزنز کو دیکھتا ہوں یا خود کو کہ میں اپنے کزنز کی ساتھ کیسا ہوں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے چاہے قصور میرا بھی ہو اور کوئی مجھے ٹوکے تو میں اس کا وہ حشر کرتا ہوں کہ بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کزنز تو دور کی بات ہے ہم سے تو بھائیوں کو برداشت نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ ان کے کنڈیشن سمجھتے ہوئے ان کے لیے آسانی پیدا کریں ۔

اب لوگ ہی نہیں رہے کہ خود کو پیش کریں کہ دوسرے ان پر اپنا غصہ فرسٹریشن نکال کر خود کو ہلکا کر لیں ۔

ہم محدود سے محدود ہوتے جا رہے ہیں پتہ نہیں پھر سے ہم اپنی چوپالیں ، بیٹھکیں ، اور طاقیں آباد کر پائیں گے کہ نہیں جہاں یہ سارے نفسیاتی مسائل

ایک دوسرے کی مدد جانے انجانے حل ہو جاتے تھے ۔
اب تو فیس بک نے اور محدود کر دیا ہے ہم تو اپنے گرد ایک چھہ آٹھ انچ کے اسکرین سامنے رکھی ہوئی ہے جو ہماری پسند پہ پورا نہیں اترتا اسے ٹھڈے مار کے ہٹا دیتے ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ چھ آٹھ انچ کی اسکرین لوگوں کو اور جوڑتی اور قریب کرتی جدید دور کی اوطاق ،بیٹھک، چوپال بنتی ۔

لوگ ایک دوسرے سے جڑتے ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرتے مگر ہو اس کے الٹ رہا ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آسانی عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین

No comments:

Post a Comment