Saturday, January 31, 2015

غلام کی قسمت


مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا ۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے ۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا ۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا ۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے ۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا ۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا ۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی
مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا ۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا ۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا ۔
ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی ۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں ۔ تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے ۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا ۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو ۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا ۔ حضرت ابو خذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا ۔ غلام نےقران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا ۔اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے ۔
ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا ۔
مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا ۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔
مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے
اللہ پاک نے انہیں خوش گلو اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے ۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی ۔ آپ ﷺ نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا ، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اورخوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے ۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے ۔ انکا نام حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھا ۔ جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھے ۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا ۔
اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔
السیرۃ النبویۃ)ابن ہشام(، الطبقات الکبریٰ ابن سعد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Friday, January 30, 2015

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں 
اور دیکھتے ہیں
اِن سانسوں کی تضحیک میں سے 
اِس ماہ و سال کی بھیک میں سے
اِس ضرب ، جمع ، تفریق میں سے
کیا حاصل ہے کیا لا حاصل
چل گٹھڑی کھول کے لمحوں کو 
کچھ وصل اور ہجر کے برسوں کو
کچھ گیتوں کو، کچھ اشکوں کو
پھر دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں
یہ درد بھری سوغات ہے جو
یہ جیون کی خیرات ہے جو
اک لمبی کالی رات ہے جو
سب اپنے پاس ہی کیوں آئی
یہ ہم کو راس ہی کیوں آئی
یہ دیکھ یہ لمحہ میرا تھا جو اور کسی کے نام ہوا 
یہ دیکھ یہ صبح کا منظر تھا جو صبح سے مثلِ شام ہوا 
اور یہ میرا آغاز پڑا جو بد تر از انجا م ہوا
اب چھوڑ اسے آ دیکھ ادھر
یہ حبس پڑا اور ساتھ اس کے 
کچھ اکھڑی اکھڑی سانسیں ہیں
ا ک دھندلا دھندلا منظر ہے 
اور اجڑی اجڑی آنکھیں ہیں
یہ جھلسے ہوئے کچھ خواب ہیں جن کے ساتھ کوئی تعبیر نہیں
یہ دیکھ حنائی ہاتھ بھی ہیں پر وصل کی ایک لکیر نہیں
دو نازک ہونٹ گلاب سے ہیں پر داد جو دے وہ میر نہیں
اک اسم محبت والا ہے اور اس کی بھی تفسیر نہیں
بس اتنی ہمت تھی تجھ میں
بس تیری آنکھیں بھیگ گئیں
ابھی اور بہت سے لمحے ہیں 
ابھی اور بہت سی باتیں ہیں
ابھی ہجر بھرا اک ہجرہ ہے
ابھی درد بھری اک کٹیا ہے
چل چھوڑ اس درد کہانی کو 
روک آنکھ سے بہتے پانی کو
آ ڈھونڈ کہیں اس گٹھڑی میں 
اک ہجر آلود سا وعدہ ہے
وعدہ بھی سیدھا سادہ ہے
بس اپنے اپنے رستے پر
چلتے رہنے کا ارادہ ہے
تُو دیکھ اگر وہ مِل جائے
ممکن ہے زخم بھی سِل جائے 
ورنہ ہم ہجر جو کاٹ چکے
وہ اس جیون سے زیادہ ہے

میرے درد کو جو زباں ملے

میں وہ کہہ سکوں جو کہا نہیں
میں وہ سن سکوں جو سنا نہیں
ہے یہی دعا یہی آرزو
وہ میرا بنے جو میرا نہیں
میری خاموشی کو بیاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
مجھے روشنی کی تھی جستجو
میرا دن ہوا کسی رات سا
میری حسرتیں میرے روبرو
ہے یہ امتحاں میری زات کا
مجھے اپنا نام و نشاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
ہے مجھے بکھرنے کی آرزو
میرا کرب ہی ہے میرا سکوں
میری وحشتوں کا یہ دشت ہے
یہاں جاگتا ہے میرا جنوں
مجھے دولت دو جہاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
کیوں اداسیاں ہیں ملال کیوں
میرا ہو گیا ہے یہ حال کیوں
ہوا ریزہ ریزہ میرا وجود
میری زندگی ہے سوال کیوں
جو مجھے یہ راز نہاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے

مُجھے تُم یاد رکھو گے

بچھڑ جائیں گے ہم لیکن
ہماری یاد کے جُگنو، تمہاری شب کے دامن میں
سِتارہ بن کے چمکیں گے

تُمہیں بے چین رکھیں گے
بہت مصروف رہنے کے، بہانے تم بناؤ گے
بہت کوشش کرو گے تُم
کہ اب موسم جو بدلیں تو، ہماری یاد نہ آۓ

مگر
ایسا نہیں ہوگا
کہیں جو سرد موسم میں
دِسمبر کی ہواؤں میں
تُمھارے دل کے گوشوں میں
جمی ہیں برف کی طرح
وہ یادیں کیسے پگھلیں گی

کبھی گرمی کی تپتی سُرخ گھڑیوں میں
میرے ماضی کو سوچو گے
تو آنکھیں بھیگ جائیں گی
گھڑی پیچھے کو دوڑے گی
کئی سالوں کی گُم گشتہ، ہماری یاد آۓ گی

بچھڑ جاؤ ! ! مگر سُن لو
ہمارے درمیان ، ایسی کوئی تو بات بھی ہوگی
جِسے تُم یاد رکھو گے
مُجھے تُم یاد رکھو گے

Wednesday, January 28, 2015

سال ہی بدلتے ہیں وقت کب بدلتا ہے

آج ایسا لگتا ہے
سال ہی بدلتے ہیں
وقت کب بدلتا ہے
میں نے سارے خوابوں کو
آج پهر نکالا ہے
سوچتا ہوں حیرت سے
یہ تو اب بهی زندہ ہیں
انکے پهول ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
روشنی ہے آنکهوں میں
خواہشوں کو پیتے ہیں
دل میں رهنے والے سب، اس طرح ہی جیتے ہیں
پوچهتے ہیں مجھ سے وہ
تم کہاں سے آئے ہو
خوابناک لمحوں کو پر عذاب مت کرنا
تم سے پہلے اک تاجر ہم کو یاں پہ لایا تها
اسکے لوٹ آنے تک ہم سےبات مت کرنا
خواب خواب ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر ہے کہ
وقت کے مسافر کو
عمر کی رفاقت نے
نقش نقش بدلا ہے
نقش جب بدلتے ہیں
خواب اپنے مالک کی شکل بهول جاتے ہیں
سال آتے جاتے ہیں ، سال آئیں جائیں گے
اور آنے جانے میں ایک دن وہ آئے گا
ہم یہاں نہیں ہوں گے
خواب تو یہیں ہوں گے
سال ہی بدلتے ھیں
وقت کب بدلتا ہے

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ
ﺟﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﻨﺠﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﯿﻠﯽ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ
ﺳﮑﮭﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﮐﮭﮧ ﺑﮑﮭﯿﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ؟
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ ﻧﮯ
ﻧﻤﻨﺎﮎ ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺗﮭﺎ
ﺳﯿﻨﺪﻭﺭ ﺍﺩﺍﺱ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ؟
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺟﻠﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﺟﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﺎ
ﻣﮩﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺯﺭﺩ ﻟﮑﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﻥ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ
ﺟﮭﻮﻣﺮ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﺭﭼﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﮯ ﻗﯿﻤﺖ ﺿﺒﻂ ﮐﮯ ﮨﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ؟
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ؟
ﺑﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯿﮟ ؟
ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﮯ ؟
ﮐﯿﻮﮞ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺭﮐﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ؟
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺒﻀﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﺩﮬﮍﮐﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ؟
ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﺷﻌﺎﻋﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﭼﯿﺨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﯾﺎ ﺩﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﮩﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ ؟
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ؟
ﺟﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ
ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺟﻠﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﻣﯿﮟ
ﻟﭙﭩﺎ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺩﻓﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﺘﮯ
ﻭﮦ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺐ ﺳﮑﮭﯿﻮﮞ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺎﮞ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ؟
ﺟﻮ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺷﺠﺮﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﺷﺠﺮﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﮐﺎ
ﺟﻮ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﺁﻧﮑﮭﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ
ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺳﺠﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ؟
ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻨﺪﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ
ﺯﺭﺩﺍﺏ ﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ
ﺑﮑﮭﺮﯼ ﺗﻮ ﻏﺎﺯﮦ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺐ ﺳﯿﺞ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ
ﻣﺮﺟﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﭽﮭﮧ ﺑﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﮎ ﺗﺘﻠﯽ ﭼﮭﻮﻣﻨﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﻮﮰ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ
ﭘﺎﮔﻞ ﻭﺣﺸﯽ ﻣﻨﮧ ﺯﻭﺭ ﮨﻮﺍ
ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﺍﮌﺍ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﮑﮭﯿﺎﮞ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮩﺴﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰ ﮔﻨﻮﺍ ﺁﺋﯿﮟ
ﺍﮎ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺩﻓﻨﺎ ﺁﺋﯿﮟ
" ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ

میرا اللہ کتنا اچھا ھے..

میرا اللہ کتنا اچھا ھے..

اخبار میں ایک اشتہار دیکھا .. " ھم اپنے بیٹے کو بوجہ نافرمانی ' گستاخی ' بدچلنی و آوارہ گردی اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے عاق کرتے ھیں.. ھم اس کے کسی نفع نقصان کے ذمہ دار نہیں ھونگے.. ھم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ھوگا.. "

میرا اللہ کتنا اچھا ھے...

میں بدچلن ھوں ' آوارہ ھوں ' گستاخ ھوں ' نافرمان ھوں لیکن میرا اللہ کبھی مجھے اپنی نعمتوں سے عاق نہیں کرتا ' مجھ سے قطع تعلقی کا اشتہار نہیں نکالتا ' میری روٹی روزی سے غافل نہیں ھوتا ' لوگوں کو بتا کر مجھے ذلیل و رسوا نہیں کرتا.. خاموشی سے دروازہ کھلا چھوڑ کر میرے لوٹنے کا دن رات انتظار کرتا ھے..

میرا اللہ کتنا اچھا ھے...

اور جب کبھی اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں کسی تکلیف میں مبتلا ھو کر اسے پکارتا ھوں تو میری سن کر مجھے ڈھارس بھی دیتا ھے اور اس تکلیف سے مجھے نکالنے کی سبیل بھی کرتا ھے جس میں خود اپنی غلطی سے پھنس جاتا ھوں.. پھر کبھی کسی رات پشیمانی سے مجبور 
ھوکر آنسو بہاتے ھوئے اس سے شرمسار ھوتا ھوں تو وہ ماں سے بھی زیادہ تڑپ کے ساتھ اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ھے..

میرا اللہ کتنا اچھا ھے ...♡

محبت لَوٹ سکتی ھے

محبت لَوٹ سکتی ھے
محبت لَوٹ سکتی ھے
اگر ھم ایک دُوجے کو اُنہی معصوم نظروں سے پُکاریں
جن سے پہلی بار دیکھا تھا
اگر مل بیٹھ کر دونوں
غلط فہمی کی کالی رات سے باھر نکل آئیں
تو گویا دن نکل آئے
ھم اب بھی خوبصورت ہیں
ھمارے زرد چہروں
دُکھ بھری آنکھوں میں اب بھی حُسن بستا ھے
جو ھم رُخصت کریں ان تلخ باتوں کو
تو وہ شیریں بیانی خود بخود آئے گی
جو پہلے پہل دونوں کے لہجوں میں
محبت بن کے آئی تھی
ادھر دیکھو
یہ رستہ اب بھی پیارا ھے
نئے وعدوں کی اُنگلی تھام کر پھر چل پڑیں
چلتے چلے جائیں
محبت راستہ ھے
اس میں پھولوں ، تتلیوں اور جگنوؤں کے قافلے
اب تک ھمارے منتظر ہیں
اب بُھلا ڈالو گَلے مل کر گِلے
شکوؤں سے دامن جھاڑ لو
پہلے قدم پر ھی محبت لوٹ آئے گی

میرا ہر لفظ روتا ہے


یہی وعدہ لیا تھا نہ
ہمیشہ خوش ہی رہنا ہے
لو دیکھو۔۔ دیکھ لو آ کر
میری آنکھوں کو دیکھو تم
یہ کتنی شوخ لگتی ہیں

میرے ہونٹوں کو دیکھو تم
ہمیشہ مسکراتے ہیں
کوئی غم بھی اگرآیا
اسے ہنس کر سہا میں

میرے چہرے کو دیکھو تم
ھمیشہ پر سکوں ہو گا
کیا تھا میں نے جو تم سے
وہ وعدہ کر دیا پورا

مگر اک بات ہے پیارے
کھبی جو وقت مل جائے
تو میری شاعری پڑھنا
تمہیں محسوس تو ہو گا
کہیں تلخی بھرا لہجہ
کہیں پہ سرد سا لہجہ
کہیں پہ درد کی جھیلیں
کہیں لہجے کی کڑواہٹ

سنو
میں خوش تو ہوں لیکن
میرا ہر لفظ روتا ہے

محبت کو نہ جانے دو

محبت کو نہ جانے دو
اگر تم چاروں جانب غور سے دیکھو
تو تم کو یہ خبر ہوگی
زمانہ ایک مٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
اگر آنکھوں میں ڈالو گے،
تو بینائی گنواؤ گے
اگر دل میں سنبھالو گے، تو تم جینے سے جاؤ گے
زمانہ ایک مُٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
چھوؤ تو ہاتھ میلے ہوں
چلو اس پر، تو دونوں پیر چھالے ہوں
ہوس نے جال چاروں سمت ڈالے ہیں،
اور اس کے روگ کالے ہیں
سنبھل کر جو چلے، مانو مقدر کا سکندر ہے
زمانہ ایک مٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
مگر اس خاک میں جب دل کی آنکھوں سے کوئی دیکھے
تو اِ انمول ہیرا، سامنے اپنے وہ پائے گا
ہزاروں چاند سے بڑھ کر اُجالے لے کے آئے گا
اُسے حیران کر دے گا
بڑی سےہو بڑی مشکل، اُسے آسان کر دے گا
اُسی انمول ہیرے کا محبت نام ہے جاناں!
محبت دل پہ دستک دے تو آنے دو،
محبت کو نہ جانے دو
مقدر سے اگر تم یہ مل جائے، گنوانا مت
اُسے مٹھی میں بند رکھنا، گِرانا مت
یہ وہ دولت ہے جو اک بار،
گُم ہو کر نہیں ملتی
یہ ہو خوشبو ہے جو ہر پھول کے در پہ نہیں جاتی
محبت جب چلی جائے کبھی واپس نہیں آتی
محبت کو نہ جانے دو

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے

مجھے تنہا نہیں کرنا

میری سوچوں کے
جنگل میں
تمھارے نام کے جگنو
مجھے رستہ دکھاتے ہیں
میری نیندوں کے صحرا میں
تمھارے خواب کا سایہ
بہت زیادہ ضروری ہے
اسے گھٹنے نہیں دینا
یہ تم جانتے ہونا !!
میرے لفظوں کی مالائیں
میری ساری تمنائیں
تمھارے بن ادھوری ہیں
میری ہر سوچ کے آنگن میں
تم ہی مسکراتے ہو
میرے بے ربط جملوں کو
تم ہی مصرعے بناتے ہو
میری سب شاعری جاناں!!
تمھارے بن ادھوری ہے
میری ہر اک خوشی جاناں!!
تمھارے بن ادھوری ہے
یہ میری زندگی جاناں
تمھارے بن ادھوری ہے
میری تکمیل تم سے ہے
مجہے آدھا نہیں کرنا
مجھے آدھی ادھوری
زندگی سے 
خوف آتا ہے
کمی جیسی بھی ہو
مجھ کو کمی سے خوف آتا ہے
مجھے تنہا نہیں کرنا

میں لڑکی مشرقی ٹھہری

میں لڑکی مشرقی ٹھہری
اصولوں میں کڑی ٹھہری
مجھے جس سے محبت ہے
مجھے اس سے چھپانا ہے
کہو ناں بھول جاؤ گے
مجھے دل کو منانا ہے
وہ میرے دل میں رہتا ہے
وہ دل بن کر دھڑکتا ہے
دھڑکنا دل کا لازم ہے
مگر پھر بھی گھٹانا ہے
میری سانسیں ہمیشہ اسکی خوشبو سے مہکتی ہیں
میں انکو کس طرح روکوں
ضروری سانس انا ہے
انا کے زعم میں حیا کو زندگی کہنا
وفا کی رازداری میں
اکیلی جاں پہ غم سہنا
میری برسوں کی عادت ہے
یہ صدیوں سے روایت ہے
مجھے اس نے کہاتھا
اسے مجھ سے محبت ھے
اور اسنے یہ بھی پوچھا تھا
میں اسکو کیا سمجھتی ہوں
تو میں نے کہا تھا
کہ آپ. . . . . . .
کبھی کچھ کہہ نہ پاتی میں
مجھے خاموش رہنا تھا
کہیں آنکھوں میں نہ پڑھ لے
مجھے پلکیں جھکانا تھا
انکا مان ہے مجھکو
ہاں اگر ہے رازدان کوئی
تو وہ ہے بس خدا میرا
میں اپنی سب دعاؤں میں
میں ہر شب تہجد میں
سمٹ کر اپنے دوپٹے میں
اٹھا کر ہاتھ رب سے یہی فریاد کرتی ہوں
میرا وہ شخص ہوجائے
مجھے جس سے محبت ہے
بھروسہ میرا اللہ پر
اس سے روشنی
مجھے امید اللہ سے
کیونکہ
میں لڑکی مشرقی ٹھہری

Monday, January 26, 2015

وہ لفظ مُکمل ھے وہ لفظ ”مُحمد“ ھے

قرطاس کے چہرے پر
اِک لفظ لکھا میں نے
اُس لفظ کی خوشبو سے
قرطاس مُعطر ھے
اُس نام کی کرنوں سے
ہر چیز مُنّور ھے
وہ لفظ مُکمل ھے
وہ لفظ ”مُحمد“ ھے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

تمھارے روٹھ جانے سے

اک تمھارے روٹھ جانے سے
کسی کو کچھ نہيں ہوتا
پھول بھی مہکتے ہيں
رنگ بھی دمکتے ہيں
سورج بھی نکلتا ہے
تارے بھی چمکتے ہيں
ليکن اتنا ضرور ہوتا ہے
اک تمہارے روٹھ جانے سے
کو ئی ہنسنا بھول جاتا ہے 

وقت


وقت کا کام گزرنا ہے اور وقت کی بساط کے آگے کسی کا زور نہں چلتا ـ وقت کبھی کسی کے لیے نہیں رُکتا ـ وقت کے تیز دھار ے میں انسان بہتا چلا جاتا ہے، اِن گزرتے ماہ و سال میں جانے کتنے ھی لمحے ایسے آئے جن کو پا کر یوں محسوس ھوا کہ جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کی تمام تر خوشیاں، تمام تر رعنایاں بس اِسی ایک پل میں ہیں مگر، اگلے ہی پل وقت نے کروٹ لی تو احساس ھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ زندگی کا سفر ابھی باقی ھے !!

لمحہ لمحہ نظر آتا ھے کبھی اِک اِک سال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی لمحے کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سال گزر جاتا ھے !!
کبھی نرمی،کبھی سختی،کبھی عجلت کبھی دیر،
"وقت" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے دوست، بہرحال گزر جاتا ھے !

دعاؤں میں بسے لوگو!

دعاؤں میں بسے لوگو!

سنو
یہ رابطوں کی دنیا ہے
رابطوں سے رشتے ہیں
چاہتوں کے یہ سنگم
خوشیوں کے یہ آنگن
دوستی کے یہ بندھن
ہم کو یا د آئیں گے

آنے والے سالوں میں

کس کے سنگ ہنسنا ہے
کس سے مل کر رونا ہے
کب یہ اپنے بس میں ہے
مگر آسمان کی جانب
پھیلے ہاتھ کہتے ہیں
دل سے دل کا ہر تعلق
معتبر دعا سے ہے

دعاوں میں بسے لوگو
جہاں بھی رہو
سدا خوش رہو 

محبّت بھی جگنو کی روشنی جیسی ہوتی ہے

جگنو اس لئے روشنی نہیں بکھیرتا کے اسے راستہ دکھانا مقصود ہوتا ہے یا اندھیرے کی اکتاہٹ اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیتی ہے

بلکے وہ روشنی اس کی فطرت کی آنچ سے خود بخود پھوٹ پڑتی ہے - یہ روشنی اس کے وجود کا وہ ناتمام حصہ ہے جو تمام کی طلب میں دہکتا رہتا ہے -

دنیا کے کسی بھی جگنو کو روشنی بکھیرنے کے لئے اپنے اندر لالٹین روشن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی -

محبّت بھی جگنو کی روشنی جیسی ہوتی ہے -ازلی اور ابدی- یہ روشنی جگنو کی زندگی سے جڑی ہوئی ہے بلکہ یہی اس کی زندگی ہے - یہ اس کی روشن سانسیں ہیں جس طرح کوئی اپنی سانسوں کو تھوڑی دیر کے لئے ملتوی نہیں کرسکتا اسی طرح محبّت کو بھی ملتوی نہیں کیا جاسکتا -

محبّت ایک دوسرے کے اندر جذب ہونا ہے اور پھر ایک دوسرے کی سانسوں میں مسلسل جاگتے رہنا ہے.

کتنا عجیب رشتہ ہے

کتنا عجیب رشتہ ہے
درد اور محبت میں ....
جس قدر محبتوں میں شدتیں مہکتی ہیں
درد بڑھتا جاتا ہے
کیا عجیب رشتہ ہے
خواب اور حقیقت میں ....
جس قدر بھی اچھے ہوں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
اور یہ حقیقت ہے .....
کیا عجیب رشتہ ہے
آنسوؤں کا بارش سے .....
ہجر کی کہانی جب آنسوؤں سی لکھی ہو
بارشیں نہیں رکتیں...
کیا عجیب رشتہ ہے
راستوں کا منزل سے
دل سے گر نہ چلتے ہوں
لاکھ راستے بدلیں
منزلیں نہیں ملتیں ...
کیا عجیب رشتہ ہے
لفظ کا خیالوں سے....
میں تیرے خیالوں میں
گم اگر نہیں ہوتا ......
لفظ ہی نہیں جڑتے
کیا عجیب رشتہ ہے
دل سے تیری چاہت کا .....
لاکھ روکنا چاہوں
دل کو تیری چاہت سے....
دل میری نہیں سنتا ....
کیا عجیب رشتہ ہے
موت ، زندگی کا بھی
دل سے شاعری کا بھی ...
دھڑکنوں سے سانسوں کا
مجھ سے تیری آنکھوں کا ...
تجھ سے میری باتوں کا
روشنی سے راتوں کا
کچھ سمجھ نہیں آتا
ضبط آخری حد تک
آزماۓ جاتے ہیں
اور ایسے رشتوں کو
ہم نبھاۓ جاتے ہیں

تیرا ہونا میرے لیے کیا ہے

کتنے برس لگے
یہ جاننے میں
کہ تیرا ہونا میرے لیے کیا ہے
ایسا ہونا بھی چاہئے تھا
شام ہوتے ہی
چاند میں روشنی نہیں آجاتی
رات ہوتے ہی
رات کی رانی مہک نہیں اُٹھتی
شام اور خوشبو کے بیچ
ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے
جس کا ہماری زمیں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اس آسمانی لمحے نے
اب ہمیں چھو لیا ہے 

محبت خاموش رہتی ہے

بہت شور میں بھی محبت خاموش رہتی ہے
بہت کرب میں بھی محبت صبر ہوتی ہے
محبت ابر ہے جاناں زمانے کی تمازت میں
محبت وقت ہے جاناں یہ مشکل میں راحت ہے
محبت اداۓ دلربائ ہے محبت روگ نہیں ہوتی
محبت اذیت نہیں ہوتی محبت وحشت نہیں ہوتی
محبت صبر ہوتی ہے محبت جبر نہیں ہوتی
محبت روپ ہے جاناں ماں کی دعاۓ مہربان جیسا ہے
محبت خوب ہے جاناں یہ خامشی میں جھلکتی ہے
محبت کو اگر دیکھو یہ روحوں میں دمکتی ہے
اشکوں میں مچلتی ہے دل میں دعابنکر مہکتی ہے
زمانے کی بے حسی میں محبت احساس ہے جاناں
یہ احساس بہت دلکش سا ہوتا ہے کسی وحی سا ہوتا ہے
محبت کمال ہے جاناں ۔۔ درد ہے درد کا درماں ہے جاناں
لگے جتنی بھی بے پرواہ محبت انجان نہیں ہوتی!
کوں کہتا ہے محبت بیداد ہوتی ہے
قید میں بھی محبت آزاد ہوتی ہے
ہزار آندھیوں میں ۔۔ محبت آس ہوتی ہے
ساتھی سارے پلٹ جائیں محبت پاس ہوتی ہے
محبت خاص کرتی ہے ۔۔ محبت خاص ہوتی ہے
درد جتنا ہی گہرا ہو محبت راس ہوتی ہے!

ہمیں جب الوداع کہنے لگو تو

ہمیں جب الوداع کہنے لگو تو
مسکرا دینا
ستارہ ساتھ کر دینا
کہ راستے میں اندھیرے بھی آئیں گے
کہ حرفِ دعا ساتھ کر دینا
ہمیں زادِ سفر کو
تمہاری یاد کی سوغات کافی ہے
تمہارے ساتھ بھی گزرا ہوا پل غنیمت ہے
کہیں ٹھہرے جو راستے میں
سنہری یاد کی صورت
تمہیں ہمراہ پائیں گے
تو تم تنہا کہاں ہو گے
مگر پھر بھی
ہمیں جب الوداع کہنے لگو تو مسکرا دینا
ستارا ساتھ کر دینا
کسی حرفِ دعا کا استعارہ ساتھ کر دینا