Friday, January 30, 2015

میرے درد کو جو زباں ملے

میں وہ کہہ سکوں جو کہا نہیں
میں وہ سن سکوں جو سنا نہیں
ہے یہی دعا یہی آرزو
وہ میرا بنے جو میرا نہیں
میری خاموشی کو بیاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
مجھے روشنی کی تھی جستجو
میرا دن ہوا کسی رات سا
میری حسرتیں میرے روبرو
ہے یہ امتحاں میری زات کا
مجھے اپنا نام و نشاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
ہے مجھے بکھرنے کی آرزو
میرا کرب ہی ہے میرا سکوں
میری وحشتوں کا یہ دشت ہے
یہاں جاگتا ہے میرا جنوں
مجھے دولت دو جہاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے
کیوں اداسیاں ہیں ملال کیوں
میرا ہو گیا ہے یہ حال کیوں
ہوا ریزہ ریزہ میرا وجود
میری زندگی ہے سوال کیوں
جو مجھے یہ راز نہاں ملے
میرے درد کو جو زباں ملے

No comments:

Post a Comment