مجھے دو لفظ کہنے ہیں
کسی کو فون کرنا ہے
فقط دو لفظ کہنے ہیں
کسی کو فون سے پہلے
کبھی بھی فون سے پہلے
نہیں کانپے کبھی یہ ھاتھ
نہیں اٹکی گلے میں بات
مجھے دو لفظ کہنے ہین
فقط دو لفظ کہنے ہیں ۔
ابھی گھنٹی بجے گی
دوسری جانب کوئ ہوگا
تھکا ماندہ بہت ھارا
کہ جس نے جانفشانی سے
توجہ سے محبت پیار کا پانی
بہت بھر بھر کے ھاتھوں سے
جو اک پودہ لگایا تھا
کہ جس پر کونپلیں
نکلیں تھیں تازہ سی
گلاب اس میں سے بس
کھلنے ہی والے تھے
اسی اس کی محبت
کے ثمر ملنے ہی والے تھے
گلاب آنے ہی والے تھے۔
اگر میں سامنے ہوتا
کہیں اسکے قریب ہوتا
تو بس خاموش نم آنکھیں
جھکاۓ سر کھڑا رہتا
یہ ساعت ہی نہیں آتی
اسے لفظوں سے بہلانے کی
نوبت ہی نہیں آتی
تلاش لفظ کی مجھکو
حاجت ہی نہیں آتی
مگر الفاظ کہنے ہیں
مجھے دو لفظ کہنے ہیں
فقط دو لفظ کہنے ہیں
محض افسوس کے
دو لفظ کہنے ہیں
جسے میں دوست کہتا ہوں
یہی وہ بھی سمجھتا ہے
اسی سے لفظ کہنے ہیں
فقط دو لفظ کہنے ہیں
محض افسوس کے
دو لفظ کہنے ہیں
جواں سال اسکے کے
بیٹے کی اچانک موت پر
دو لفظ کہنے ہیں
فقط دو لفظ کہنے ہیں
Friday, January 23, 2015
دو لفظ کہنے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment