Friday, January 23, 2015

دو لفظ کہنے ہیں

مجھے دو لفظ کہنے ہیں 
کسی کو فون کرنا ہے
فقط دو لفظ کہنے ہیں 
کسی کو فون سے پہلے
کبھی بھی فون سے پہلے
نہیں کانپے کبھی یہ ھاتھ
نہیں اٹکی گلے میں بات
مجھے دو لفظ کہنے ہین 
فقط دو لفظ کہنے ہیں ۔
ابھی گھنٹی بجے گی
دوسری جانب کوئ ہوگا
تھکا ماندہ بہت ھارا
کہ جس نے جانفشانی سے
توجہ سے محبت پیار کا پانی
بہت بھر بھر کے ھاتھوں سے
جو اک پودہ لگایا تھا
کہ جس پر کونپلیں 
نکلیں تھیں تازہ سی
گلاب اس میں سے بس
کھلنے ہی والے تھے
اسی اس کی محبت 
کے ثمر ملنے ہی والے تھے
گلاب آنے ہی والے تھے۔
اگر میں سامنے ہوتا
کہیں اسکے قریب ہوتا
تو بس خاموش نم آنکھیں
جھکاۓ سر کھڑا رہتا
یہ ساعت ہی نہیں آتی
اسے لفظوں سے بہلانے کی
نوبت ہی نہیں آتی
تلاش لفظ کی مجھکو 
حاجت ہی نہیں آتی
مگر الفاظ کہنے ہیں 
مجھے دو لفظ کہنے ہیں 
فقط دو لفظ کہنے ہیں 
محض افسوس کے
دو لفظ کہنے ہیں
جسے میں دوست کہتا ہوں 
یہی وہ بھی سمجھتا ہے
اسی سے لفظ کہنے ہیں 
فقط دو لفظ کہنے ہیں 
محض افسوس کے
دو لفظ کہنے ہیں 
جواں سال اسکے کے
بیٹے کی اچانک موت پر
دو لفظ کہنے ہیں
فقط دو لفظ کہنے ہیں 

No comments:

Post a Comment