یہ میں جس میں رہ رہا ہوں کہیں خواب ہی نہ ہو
کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے یہ طلسم ِ رنگ و نور
کہیں تم ہی یہ نہ کہہ دو کہیں ہم ملے شاید
کیوں گماں تیرا ہوا اک اجنبی کو دیکھ کر
سوچتی ہیں کچھ یہ آنکھیں پھر اسی کو دیکھ کر
دوستو کہنا ضرور اس خوبصورت شخص سے
دل دھڑکتا ہی نہیں ہے اب کسی کو دیکھ کر
اس قدر میں نے جلائے تیرے ہجراں میں چراغ
رات آتی ہی نہیں ہے روشنی کو دیکھ کر
رفتہ رفتہ آرہی سے تجھ سے باہر میری ذات
شاید اب پہچانتا ہوں زندگی کو دیکھ کر
جا رہی ہے غیر کے پہلو میں میری زندگی
جی لرز اٹھا ہے اپنی بے بسی کو دیکھ کر
پھر مرے چاروں طرف خوشبو ہے میرے یار کی
خوش ہوا ہوں غم میں اپنی واپسی کو دیکھ کر
رات کا ویران صحرا ذہن میں لہرا گیا
ڈر رہا تھا شام کی خالی گلی کو دیکھ کر
ہر جگہ منصور ظالم ہے محبت ہر جگہ
رو پڑا میں یار کی تر دامنی کو دیکھ کر
No comments:
Post a Comment