Sunday, January 25, 2015

آج اس کے ہونٹوں پر لفظ چھوڑ آیا ہوں

ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹھیس کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط ٹوڑ آیا ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آیا ہوں

No comments:

Post a Comment